شیناشاعری کا مقدمہ...

 شیر زمان خان
زبان کسی بھی معاشرے کو  بقائے باہم کے فروغ کے لیے  بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی تہذیب و تمدن کے دیگر لازمات سے اہمیت  میں ممیز ہے کہ اس نے  انسانوں کو  ایک دوسرے کا مافی الضمیر سمجھنے اور آپس میں یکسانیت اور ہم آہنگی تلاش کرنے کا موقع فراہم کیا، جس سے معاشرت کی داغ بیل پڑی ۔
گلگت بلتستان کی سرزمین اس لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز ہے کہ زبانوں کے حوالے سے اتنا تنوع اور کثرت شاید ہی کہیں میسر ہو۔اٹھائیس ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلےہوئے پہاڑی خطے میں آٹھ زبانیں ،قریباً دو درجن مختلف لہجوں میں بولی جاتی ہیں۔ شینااکثریت کی بولی ہے،حالانکہ بلتی اور بروشسکی کی طرح اس کا متفقہ رسم الخط موجود ہے، نہ ہی کوئی قابل ذکر تحریری اثاثہ۔ شینا زبان میں علم و فن کے شعبے میں جتنا تخلیقی کام ہوا وہ گیتوں ،کہانیوں اور حکایات پر مشتمل ہے اور یہ صدیوں سے سینہ بہ سینہ محفوظ چلا آرہا ہے۔یہ لوک ادب اس دور کے تجرباتی علم اور وجدا ن کانچوڑ ہے۔اس لوک ادب کا بڑا حصہ یعنی دیومالا اس وقت کے انسان کی امنگوں، ڈرخوف اور خوشی و شادمانی، رنج والم اورغربت وعسرت کا عکاس ہے۔ ان کہانیوں اور گیتوں کے متنوع کرداروں اوردیومالائی واقعات کے ذریعے علاقے کی قدیم ثقافت اور طرز حیات کو زندگی بخشی گئی ہے۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں کہانیوں اور دیو مالا کی روایت تومعدوم ہوتی جارہی ہے، البتہ گیتوں نے روایتی موسیقی کے ساتھ اپنے سنگم کی بدولت اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔ شینا شاعری کا مزاج بھی تمام ادوار میں اس مخصوص موسیقی اور اس کی دھنوں سے ہم آہنگ رہا ہے۔شینا شاعری روایتی طور پر مخصوص بحر  کی حامل ہوتی ہے، جو روایتی ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کے سروں سے تال میل رکھے ۔شینا شاعری کو تحت اللفظ پڑھنے پڑھانے کا رواج کبھی نہیں رہا، اور نہ ہی یہ عوام کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔عوام کو ہمیشہ سے شینا حریپ (علاقائی موسیقی) کی خوبصورت دھنوں میں گندھی ہوئی سادہ مگر دل پذیر شاعری ہی مرغوب رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعری تجربات کے لیے میدان کبھی وسیع نہیں رہا ۔اس خلیج کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ، جو غزل اور نظم ایسی مستند شعری اصناف کا مقابلہ گانے (Lyrics)کے ساتھ کرسکیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شینا شعرا کو اپنے فن کے اظہار کے لیے کس قدر تنگ میدان میں طبع آزمائی کرنا پڑتی ہے۔

اس تنگی اور پابندی کے باوجود یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ شینا شاعری کا دامن معیار، مہارت ،سادگی و پرکاری اور فنی پختگی سے لبریز ہے۔ قدیم اساتذہ کا کلام کسی بھی زبان کے شعری ادب کے مقابلے میں بصد افتخارکھے جانے کے قابل ہے۔اس کے علاوہ یہ امر بھی بظاہر شاعری ایسے تخلیقی کام کی انجام دہی میں مانع نظر آتا ہے کہ اس فن سے وابستہ بڑے نام پڑھے لکھے نہ تھے۔لہٰذا اُنھیں یہ سہولت بھی حاصل نہ تھی کہ وہ معاصر ادبی تخلیقات اور کاوشوں کا مطالعہ کرکے اپنے علم و فضل میں اضافہ کر سکتے ،یا کم از کم اپنے کلام کو خود تنقید کے مراحل سے گزار سکتے۔ان شعرا کے کلام میں اس وقت کے مخصوص معاشرتی رویوں اور طرز فکرکی جھلک واضح ہے اور اس میں میں سادگی اور جذبات کے اظہار میں سچائی نظر آتی ہے۔ ان کا کلام گو کسی انقلاب کی نوید لا سکا ،نہ ہی سیاست ،معاشرت ومذہب کی روایات پر نظر ثانی کرسکا، اس کا بڑا حصہ ان کے اندر کی آواز پر مشتمل ہے اور ادب برائے ادب کا ترجمان ہے جسے بیشتر ناقدین ادب کی اساس مانتے ہیں ۔

معروف محقق اور تاریخ دان پروفیسر عثمان علی نے شینا شاعری کو تاریخی لحاظ سے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔پہلا دور ۱۹۴۷ سے پیچھے وہ ہزار قبل مسیح تک کا پھیلا ہواہے جس میں تخلیق شدہ شینا ادب کا کوئی معتبر ذخیرہ موجود نہیں۔تاریخ دان وقت کی رکاب تھام کر بس اسی قدر پیچھے دوڑ سکے ہیں کہ انیسویں بیسویں صدی میں گلگت بلتستان اور چترال کے علاقے میں غاصب راجوں اور مہاراجوں نے درباری شاعر رکھے ہوئے تھے جو ان کی شان میں قصیدے اور ان کے مخالفین کی ہجو گوئی کیا کرتے تھے۔ اس دور کے گانوں کو برانگی گائیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی لے آہستہ ہے اور بحریں لمبی۔شادی بیاہ ،فوتگی اور دیگر مواقع کے لیے بھی گانے مخصوص تھے۔بزرگوں کو چند ایک گانے یاد ہیں مگر اس دور کے کسی شاعر کا نام زندہ نہیں ۔ علاقے میں اسلام کی آمد نے یہاں کے شعر و ادب پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔پروفیسر عثما ن علی نے اپنی کتاب شنالوجی میں بیسویں صدی کے اوائل میں متحرک چند حمد گو اور نعت گو شعر ا کے نام لکھے ہیں مگر ان میں سے کسی کا کلام دستیاب نہیں۔ ۱۹۴۷ سے ۱۹۷۰ تک کی دو دہائیاں شینا شاعری کا دوسرا دور ہے۔ڈوگرہ راج سے آزادی نے جہاں لوگوں کو مادی طور پر آزاد کیا وہیں ان کے اذہان سے عقلی اور فکری قدغنیں بھی ہٹ گئیں۔سوچ آزاد ہوئی اظہار رائے کی آزادی ملی تو شعرو ادب کا میدان بھی وسیع ہوا ۔تعلیم کارجحان آیا اور لوگوں کو ذہنی و فکری بلوغت نصیب ہوئی زندگی کی نئی جہتیں اور پرتیں آشکار ہوئیں جنھوں نے شعر میں نئے مضامین داخل کیے اور شینا شاعری عشق و سرود کے حلقوں سے نکل کر مذہب ،فلسفہ اوروطنیت کے دائرے میں داخل ہوئی۔یہاں سے شینا شاعری کا انداز بھی بدل گیا اور شعری لازمات بھی۔اس دور کے کئی شعرا کے نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں مگر ان کا کلام وقت کے دست برد سے نہ بچ سکا۔ان میں سے صرف خلیفہ رحمت جان ملنگ کا کلام دستیاب ہے۔

ضلع غذر کے رحمت جان ملنگ شینا شاعری کا معتبر حوالہؔ ہیں، جن کا صوفیانہ کلام ہر دور میں مقبول و معروف رہا ہے۔انھوں نے اپنے لیے’ ملنگ‘ تخلص کیااور اسے ہر حوالے سے برتا بھی۔انھیں قرآن و حدیث کے علاوہ عربی و فارسی زبان پر بھی ملکہ حاصل تھا۔ان کا بیشتر کلام فارسی زبان میں ہے اوران کی شینا شاعری پر بھی فارسی کا رنگ غالب ہے ۔انھوں نے اشعار میں فارسی الفاظ، مرکبات اور تشبیہ و استعارات استعمال کیے ہیں اورفارسی ہی سے مذہب،سیاست،تصوف اور فلسفہ جیسے نئے مضامین بھی مستعار لیے ہیں ۔ان مضامین کو علاقائی محسوسات کی شیرینی میں بھگو کران سے وہ اجنبیت ختم کر دی ہے جس سے اہل شینا بدک سکتے تھے ۔ملنگ نے ان تجربات سے شینا کلام کو گیت کی روایتی سادگی و عوامی پن سے بلند کرکے اسے وہ فکری و علمی رفعت بخشی کہ اسے خاصے کی چیز بنا دیا۔۱۹۶۵میں ان کی کتاب گلزار ملنگ چھپی جس میں ۱۶۵ شینا اشعار شامل تھے اور یہ پہلا موقع تھا جب شینا شاعری کو لکھ کر پیش کیا گیا۔ ملنگ کی شاعری متنوع مضامین ، مختلف موضوعات اور اچھوتے خیالات کا قوس قزح ہے، مگر ان کی اصل پہچان ان کی لازوال عشقیہ شاعری ہی بنی۔ ان کا عشق سچا اور کھرا تھا، لہٰذا وہ اس معراج تک پہنچے کہ وہ ہوا کی لہروں پر تیرتی اپنی محبوبہ کی خوشبو پہچان لیتے تھے ۔یہ عرفان جب ان کے لفظوں میں اتر آیا ،تو انھیں لازوال بنا گیا۔

ملنگ کی کتاب نے شینا شاعری کی لکھائی اور چھپائی کی طرح ڈالی مگر اس جدت کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ شینا کلچر میں رقص و سرور کی روایت بہت قدیم اور پختہ تھی اور عوام گیت کو بزمی رنگ سے الگ دیکھنے کے قائل نہ تھے۔اس کے علاوہ اس میں جو امر مانع تھا وہ شینا حروف تہجی کی عدم دستیابی تھی۔ڈاکٹر ناموس نے پہلے شینا حروف تہجی ساٹھ کی دہائی میں متعارف کرائے ۔ ۱۹۷۰ کے بعد شینا شاعری کا تیسرا دورشروع ہوا جو شینا شعر و ادب کی نشووپرداخت کے لحاظ سے بہت متحرک ثابت ہوا۔پڑھے لکھے لوگ اس میدان میں اترے اور اپنا ہنرآزمایا۔محمد امین ضیا نے ڈاکٹر ناموس کے حروف تہجی کو مزید بہتر کیا اور ان کی تعداد بھی کم کی اور انھی حروف تہجی کی مدد سے ۱۹۷۱ میں سان کے نام سے شینا کی پہلی کتاب لکھی۔ان حروف میں تمام شینا صوتیات کو جگہ دی گئی مگر ہنوز کسی اور کا لکھا ہوا پڑھنے اور سمجھنے میں مشکل درپیش رہی اور یوں شینا شعر و ادب کا کتاب سے رشتہ نہ جڑ سکا اور اس دور میں بھی مقبولیت کا سہرا امین ضیا ، راجی رحمت ، فضل الرحمان عالمگیر جیسے عالم و فاضل شعرا کی بجائے جان علی کے سر سجا۔

جان علی ، شینا شاعری کی ایک قد آور شخصیت ہیں، جنھیں بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ان کی شاعری گنجلک ادبی استعارات و محاورات سے آزاد ہے۔انھوں نے اپنے کلام میں عوامی خیالات اور خواہشات کو ملحوظِ خاطر رکھا اور عوام کو وہی کچھ دیا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ان کے کلام کی سلاست اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر معصومیت میں تبدیل ہوتی ہے اور یہی وہ موقع ہے جب وہ سامع پر جادوسا اثر کرتے ہیں اور وہ ان کا ہو کر رہ جا تا ہے۔ان کے کلام میں تشبیہ و استعارات کا استعمال اس قدر موزوں و بر محل ہے کہ سامع عش عش کر اٹھے۔ایک گانے میں وہ کہتے ہیں۔۔

تمھارے نازک لب گویا کاغذی ہیں اورآنکھیں ملائک نے محبت کے سانچے میں ڈھالی ہیں،تمھارے اطوارحسن اخلاق کا حسین مرقع ہیں، تمھاری آنکھیں باز ایسی خوبصورت، بدن بید کی چھڑی کے موافق لچکیلا اور تمھاری زلفیں گویا سونے کے تاروں میں گندھی ہوئی ہیں۔

 
اس کلام سے میر تقی میر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے،اس میں استفادے کا احتمال ہوسکتا تھا لیکن اس معاملے میں یہ نکتہ خارج از بحث ہے کیونکہ جان علی ہرگز پڑھے لکھے نہ تھے کہ میر کے کلام سے استفادہ کرسکتے۔ جان علی معاشرے کے اس طبقے سے اٹھے تھے ،جہاں عوام کو تفریح مہیا کرنا ایک منصبی فریضہ ہے،لہٰذا ان کے گانوں میں تفریح کا رنگ غالب ہے،مگر شاعر معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے،جان علی عشق و محبت کی رنگینیوں میں کھو کر معاشرتی فرائض سے صرفِ نظر نہ کرسکے۔گلگت شہر کے حالات ، ارباب اختیا ر کی بے حسی و بے گانگی اور معاشرتی مسائل نے ہمیشہ جان علی کا جگر چھلنی کیے رکھا۔یہی درد ان کی شاعری میں رہ رہ کر جھلکا اور ان کی آواز دبے اور پسے ہوئے عوام کی آواز بن کر ابھری۔عوام نے بھی ان کی خوب پذیرائی کی ، انھیں بابائے حریپ اور بابائے شینا کے خطاب سے نوازا ۔ ان کا جوش اور ولولہ پیرانہ سالی کے باوجود آج بھی جوان ہے۔ 

آج کل معیاری شاعری کم سننے کو ملتی ہے۔اہل علم و فضل نے اس میدان سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے جسے شہرت کے بھوکے اور کم علم لوگوں نے سنبھال رکھا ہے ۔یہاں یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ شاعری بیدار مغز ، باشعوراور ذکی الحس لوگوں کا پیشہ ہے اور علم ، مسلسل ریاضت ،کثرت مطالعہ اور تجربے کی وسعت سے ہی اس میں پختگی اور کمال عود کر آتا ہے۔شاعری خداداد صلاحیت ہے ، کسی میں صلاحیت موجود ہو توالفاظ خود لڑی میں پرو کر سامنے آتے ہیں، لیکن شاعری بزورنہیں کی جاسکتی۔یہ ایسی شے نہیں جو سیکھی جا سکے ۔ہماری بدقسمتی کہ شینا شاعری ہمارے ہاں عوام ہی کی منظور نظر رہی اور اسے اہل علم کا التفات کم ہی حاصل رہا۔یہی وجہ ہے کہ اس میں ابھی بہت سے سنگ میل عبور ہونا باقی ہیں۔اس کے لیے شینا شاعری اہل علم کی نظر التفات کی محتاج ہے۔شینا شاعری کو رقص و سرور اور عوامی تفریح سے الگ کرکے اسے کتابوں اور مشاعروں تک رسائی دینا ہوگی ، جو یقیناًاس کے لیے ایک تازہ سانس ثابت ہوگی۔


آج شینا زبان پر بہت کام ہو رہا ہے۔قدیم اساطیری کہانیوں کو بھی کتابی شکل دی جاچکی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ شینا لوک ورثے کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔یہ ایک بہت بڑا فریضہ ہے کیونکہ دنیا بھر کی غالب ثقافتوں نے جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے محدود ثقافتوں پر یلغار کر رکھی ہے اور یکے بعد دیگرے کمزور اور مغلوب ثقافتیں اور تہذیبیں اپنا وجود کھو رہی ہیں۔اس وقت شینا زبان اپنے آدھے سے زیادہ الفاظ کھو چکی ہے جن کی جگہ انگریزی اور اردو الفاظ مستعمل ہیں۔اقوام متحدہ معاصر بلتی اور بروشسکی کو معدوم ہوتی ہوئی زبانوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہیں ۔یہی صورت حال شینا کو درپیش ہوسکتی ہے،۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک شینا اکیڈمی قائم کرے جس میں شینا تہذیب وثقافت پر ریسرچ سکالرشپ کااہتمام کیا جائے اور قراقرم یونیورسٹی میں شینا لوجی کے شعبہ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔اس کے علاوہ شینا زبان شینا شعر ادب کی ترویج کے لیے اٹھائے گئے ہر اقدام کی سرپرستی و معاونت کرے تاکہ شینا تہذیب و ثقافت ہمیشہ زندہ رہے اور آنے والی نسلوں تک یہ ورثہ منتقل ہوتا رہے۔

Comments