گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ

موجودہ گلگت بلتستان کا علاقہ تہذیب و ثقافت کی تکثیریت کے حوالے سے  تاریخی پہچان رکھتا ہے۔   اس تقسیم کی بنیاد اس پہاڑی علاقے کا جغرافیہ ہے ، جو دشوار گزار  دَروں اور  گھاٹیوں کے سبب  رسائی  کے قابل نہ تھا۔ زمستان  میں جب کہ برف کا بھاری غلاف  تمام علاقے کو  لپیٹ میں لے لیتا ہے تو علاقے میں آمد و رفت بالکل مسدود ہوجاتی ہے۔ لہٰذا   باقی  دنیا اور ایک دوسرے سے بالکل کٹے ہوئے ان علاقوں میں تہذیب و ثقافت  کی گونا گونی ظہور پذیر ہوئی۔ سانجھی زبانوں والے قرب و جوار کے علاقوں میں بھی لہجوں  اور حرف و معانی کی  تفاوت  اسی امر کے مرہون ِ منت ہے۔تاریخ طور پر ان علاقوں میں انتظامی وحدت کا تصور  بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بلتستان سے چترال تک پھیلے ہوئے وسیع علاقے پر صرف دو ہی مرتبہ متعلق العنان بادشاہت رہی ، وگرنہ  یہ خطہ ہمیشہ چھوٹی نیم خودمختار ریاستوں میں منقسم رہا جو یا تو مرکزی ریاست کی باجگزار تھیں یا بغاوت پر آمادہ۔ گلگت  اور سکردو ہمیشہ سے علاقے کےانتظامی مراکز رہے ہیں، جن پر مختلف وراثتی بادشاہتیں  قائم رہیں۔
ساتویں صدی عیسوی سے  انیسویں صدی تک گلگت اور بلتستان پر  یکے بعد دیگرے مختلف خاندانوں کی حکومت رہی جن میں گلگت کے تراخان، نگر کے مغلوٹ، ہنزہ کے عیاشو، پونیال کے بروشے،  یاسین کے خوش وقت ، سکردو کے مقپون ، شگر کے انچن  اوراور خپلو کے یبگو  خاندان شامل ہیں۔ داریل اور تانگیر میں قبائلی نظام تھا ، جہاں لوگ اپنے معاملات جرگے کے ذریعے نپٹاتے تھے۔ مگر خطے کےایک بڑے علاقے پر مطلق العنان بادشاہت کا دور باہمی کشمکش  اور جنگ و جد ل کے باوجود  جاری تھا۔  ۱۸۶۰ ، میں ڈوگروں نےاس علاقے پر قبضہ کر لیا  اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ انگریز برصغیر کے  طول و عرض پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔۱۹۳۵ میں  ہنزہ کے میر کےروس کی طرف جھکاؤ کو محسوس کرتے ہوئے انگریزوں نے  ان علاقوں کو ریاست جموں کشمیر سے ساٹھ سالہ لیز پر لے کر انہیں گلگت ایجنسی کے نام سے انتظامی اکائی قرار دیا اور  یہاں کرنل ڈیورنڈ کو اپنا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا۔حکومت ِ برطانیہ نے جب برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ کیا تو معاہد ہ کالعدم قرار پایا اور  انگریز گلگت  کا علاقہ مہاراجہ جموں و کشمیر کو واپس کرگئے۔
  مہاراجہ کشمیر کے زیر انتظام علاقے میں جمہوری قدریں پروان چڑھ رہی تھیں ۔  جموں کشمیر ریاستی اسمبلی کے انتخابات  باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے۔ انھی انتخابات  منعقدہ  ۱۹۳۴، ۱۹۳۷ اور ۱۹۴۱ میں گلگت بلتستان سے ہربار پانچ نمائندے منتخب ہوئے ۔گلگت بلتستان کے عوام نے نومبر ۱۹۴۷ میں مہاراجہ کشمیر  کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا اور گلگت میں مہاراجہ کشمیر  کے نمائندے بریگیڈئر گھنسارا سنگھ کو گرفتا ر کرکے آزاد ریاست گلگت کا اعلان کردیا اور راجہ شاہ رئیس خان کو ریاست کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ سترہ روز بعد  باہمی مشاورت سے بلا مشروط ریاست ِ پاکستان سے الحاق کر لیا گیا۔ اکابرین نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو خطوط ارسال کرکے الحاق کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ وہاں سے سردار عالم خان کو پولیٹیکل ایجنٹ بنا کر گلگت روانہ کردیا گیا ، جنھوں نے ۱۳ دسمبر ۱۹۴۷ کو علاقے کا نظم و نسق سنبھا ل لیا۔
 الحاق کے فوری بعد علاقے میں بدنام زمانہ قانون  فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف۔سی۔آر) کا نفاذ کردیا گیا، جس کی رو سے تمام انتظامی وعدالتی اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کو تفویض  ہوتے ہیں  جو موقع پر قانونی فیصلے سنا سکتا تھا، جن کے خلاف کہیں اپیل بھی نہ ہوسکتی تھی۔ اس سے قبل مہاراجہ کشمیر کے  دور میں آزاد  عدالتی نظام قائم تھا اور کشمیر ہائی کورٹ میں  اپیل کی گنجائش موجود تھی۔
۱۹۴۹ میں پاکستان اور حکومت ِ آزاد کشمیر میں ایک معاہد ہ طے پایا ، جسے معاہدہ کراچی کا نام دیا گیا۔ اس کی رو سے گلگت بلتستان کا  انتظام و انصرام وفاقی وزارت امور ِ کشمیر کو منتقل کر دیے گئے اور علاقے کے نظم ونسق کی ذمہ داری ، حکومت ِ پاکستا ن کے مقرر کردہ پولیٹیکل ریزیڈنٹ  کو تفویض کر دی گئی۔
سیاست کا نقطۂ آغاز:
برصغیر کی تقسیم  کے بعد  پاکستان اور بھارت میں سیاست کے مدوجزر کی ارتعاش گلگت بلتستان  کے خطے میں بھی محسوس کی گئی تھی اور صدیوں کی شخصی حکمرانی  کے  بعدجمہوریت کی داغ بیل پڑنے والی تھی ، گو اس کے ثمرات ہنوز   اوجھل تھے۔ ۱۹۵۷ میں جنگ آزادی کے ہیرو کرنل حسن خان نے  مسلم لیگ کی طرز پر ایک سیاسی پارٹی گلگت لیگ کی بنیاد رکھی ۔یہ خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی پارٹی تھی۔ ابھی اس نے آنکھ کھولی بھی نہ تھی کہ ۱۹۵۸ کا مارشل لاء نافذ ہوا اور اس نوزائیدہ پارٹی پر بھی پابندی لگ گئی۔ ۱۹۶۲  میں بنیادی جمہوریت کے خدوخال نظر آنے شروع ہوئے ۔ ساٹھ کی دہائی میں ہی گلگت و بلتستان جمہوری محاز کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں آیا جس نے اخبارات و رسائل کے توسط سے خطے کےآئینی و جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔یہ جماعت بھی کچھ برس بعد منظر عام سے غائب ہوگئی۔ ۱۹۷۳ میں کراچی میں مقیم طلبہ نے گلگت بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ اس  جماعت نے طلبہ اور نوجوان طبقے میں سیاسی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ا گرچہ یہ تنظیم تین برس بھی نہ چل پائی مگر اس نے بعد میں آنے والی گوناگوں طلبہ تنظیموں اور اداروں کے لیے رستہ صاف کیا۔
 ۱۹۶۹ میں صدر یحییٰ خان نے ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل کے نام سےایک مجلسِ مشاورت قائم کی۔۱۹۷۰ میں اسی مجلسِ مشاورت کی سولہ (۱۶) نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ اگرچہ بالکل بے اختیا ر مگر یہ خطے کی پہلی منتخب عوامی نمائندہ  مجلس تھی، جو ترقیاتی منصوبوں کی  سفارش کرتی  اور منظوری دیتی تھی۔  پہلے پہل علاقے کا ریزیڈنٹ جو ان دنوں کمشنر کہلاتا تھا ، اس ایڈوائزری کونسل کی صدارت کرتا تھا، مگر بعد ازاں وزیر امور ِ کشمیر و شمالی علاقہ جات اس کے صدر مقرر ہوئے۔
۱۹۷۱ میں تنظیم ِ ملت نامی   مقامی تنظیم کا انتظامیہ سے تصادم ہوا، جس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے کچھ مظاہرین  جاں بحق ہوگئے۔  تنظیم ِ ملت کے عہدے داروں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس سے مظاہرے میں شدت آئی اور علاقے کی آئینی و قانونی حیثیت پر سوالات اٹھے۔۱۹۷۲ میں اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے  علاقے کے بگڑتے حالات کے پیش نظر   ایف۔سی۔ آر کا خاتمہ کرکے  تنظیم ملت کے اسیران کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ساتھ ہی انھوں  نے راجگی نظام کا خاتمہ کرکے عوام النا س کو صدیوں کی غلامی سے بھی آزاد کردیا ۔  اسی وقت ضلع دیامر کے قیام کا بھی  اعلان کردیا گیا۔ ۱۹۷۴ میں انھوں نے علاقے کا دورہ کیا اور  ریاست ہنزہ کو تحلیل کردیا۔ ساتھ ہی  نئے اضلاع غذراور گھانچے کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ تنظیم ملت بعد ازاں  ۱۹۷۵ میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  (پی پی پی)    میں مدغم ہوئی اور یوں گلگت بلتستان میں قومی سیاسی جماعتوں کی بنیاد پڑی۔
۱۹۷۷ میں فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے  گلگت اور بلتستان (اس وقت کے شمالی علاقہ جات ) کو  ملک کا زون ۔ای قرار دے کر مارشل لاء نافذ کردیا۔حالانکہ سکندر مرزا اور ایوب خان کے مارشل لا کا نفاذ گلگت بلتستان کے علاقے  پر نہ ہوا تھا۔ ۱۹۷۹ میں لوکل گورنمنٹ آرڈر جاری ہوا۔
جنرل ضیاء نے اپنے طویل دور حکومت میں کئی بار گلگت اور بلتستان کو آئینی حقوق دینے کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان علاقوں کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی۔ اس پر کشمیری لیڈروں نے یکے از دیگرے خطوط ارسال کرکےا نھیں یاددہانی کرائی کہ گلگت اور بلتستان کا علاقہ کشمیر سے اپنے تاریخی تعلق کی بنا پر متنازعہ ہے اور  اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔چنانچہ مطلق العنان جنرل  اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔انھو ں نے اپنے دور حکومت میں پارلیمان  میں گلگت بلتستان سے تین مبصر ین مقرر کیے جن میں گلگت سے راجہ غضنفر، سکردو سے غلام مہدی اور استور سے وزیر افلاطون شامل تھے۔
 ۱۹۸۷ میں سید احمد علی شاہ کو  شمالی علاقہ جات کے لیے وزیر اعظم محمدخان  جونیجو کا  مشیر مقرر کیا گیا۔بعدازاں  محترمہ بے نظیر بھٹو نے قربان علی کا اپنا مشیر مقرر کیا۔ ۱۹۹۱ میں نگران وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں گلگت بلتستان میں سیاسی وعدالتی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی حکومت نے اصلاحات پر مبنی پیکیج دیا  جس کی رو سے ناردرن ایریا کونسل کی نشستیں اٹھارہ سے بڑھا کر چھبیس کر دی گئیں اور فیصلہ ہوا کہ ارکان کونسل  کا انتخاب آزاد انتخابات کے ذریعے  کیا جائے گا۔ کونسل ایک ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا انتخاب عمل میں لائے گی  جو چیف ایگزیکٹیو کے ماتحت ہوگا ۔ چیف ایگزیکٹیو  کا قلمدان وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے پاس ہوگا۔  ۱۹۹۴ میں کونسل کے لیے پہلی بار پارٹی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔اب بھی  علاقائی نمائندوں کو ملے  یہ تمام عہدے نمائشی تھے۔ تمام اختیارات اب بھی  وزارت امور کشمیر اور اس کے ماتحت بیوروکریسی ہی کے پاس تھے۔
۱۹۹۹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں  حبیب وہاب الخیری کی جانب سے ایک  پٹیشن  داخل ہوئی جس میں سیکرٹری وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) کو فریق بنایا  گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نےاس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ شمالی علاقہ جات کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیےا قدامات کیے جائیں۔
ابھی حکومت  اس ضمن میں سوچ بچار میں مصروف تھی کہ ملک پر مارشل لاء نافذ ہوگیا اور پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹیواور پھر باوردی صدر بن گئے۔ ان کی حکومت نے علاقے میں لوکل باڈیز اور کونسل کے انتخابات کرائے۔ بعد ازاں لیگل فریم ورک آرڈر ۱۹۹۴ میں ٖضروری ترمیم کرکے اسے نافذکردیا گیا جس کی رو سےمشاورتی کونسل ( ناردرن ایریاز ایڈوائزری کونسل ) کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا۔کونسل میں پہلی بار خواتین کے لیے پانچ نشستیں مختص کی گئیں۔علاوہ ازیں ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کو بھی محدود اختیارات دیے گئے، مگر ہنوز طاقت کا سرچشمہ بیورکریسی ہی رہی۔
۲۰۰۸ میں ملک نے دوبارہ جمہوریت کا سورج دیکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی  اور اس نے گلگت بلتستان کے لیے ایک مربوط نظام کا عندیہ دیا۔ طویل مشاورت اور افہام وتفہیم کے بعد ۲۰۰۹ میں ایک صدارتی آرڈیننس،Gilgit Baltistan Empowerment and Self-governance Order 2009  کےذریعے  گلگت بلتستان (اس وقت کے شمالی علاقہ جات)   کو صوبائی طرز حکومت  دے کرجزوی طور پر اختیارات  منتقل کیےگئے۔ اس آرڈیننس میں شمالی علاقہ جات کا نام تبدیل کرکے گلگت بلتستان رکھ دیا گیا اور قانون ساز کونسل کو گلگت بلتستان اسمبلی کہا گیا۔ ڈپٹی چیف ایگزیٹیو کو وزیر اعلی ٰ کا منصب دیا گیا اور  ساتھ گورنر کا عہدہ بھی قائم کیا گیا۔ ایک کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے صدر وزیر اعظم پاکستان  جبکہ نائب صدارت گورنر گلگت بلتستان کے حصے میں آئی۔اس کے علاوہ قرار دیا گیا کہ  چھ ارکان گلگت بلتستان  اسمبلی سے  منتخب کیے جائیں گے جبکہ کہ قومی کابینہ  یا پارلیمان ِ پاکستان سے وزیر اعظم چھے مزید ارکان کو مقرر کریں گے۔وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کونسل کے ایکس  ۔ افیشیو (Ex-Officio)  رکن ہونگے، یعنی وزیر  امور ِ کشمیر و گلگت بلتستان کے عہدے پر متمکن رکن ، کونسل کا حصہ ہوگا۔ صوبائی اسمبلی میں ۳۳  نشستیں قائم ہوئیں، جن میں سے ۲۴ منتخب، چھے خواتین کے لیے مخصوص نشستیں  جبکہ تین ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص ہوئیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کا قیام سیاسی اصلاحات کی جانب ایک بڑا قدم تھا  مگر علاقے کے لوگوں کوکلی طور پر ہنوز خود مختار نہ بنایا جاسکا۔ اہم فیصلے اسمبلی سے بالا ہی بالا کونسل میں کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں منتخب اسمبلی کی حیثیت پر سوالات اٹھنا قدرتی امر ہے۔
__________________
استفادہ :
۱۔ شاہ رئیس خان کی تاریخ گلگت از پروفیسر احمد حسن دانی
۲۔ گلگت بلتستان کا ادبی و لسانی جائزہ از سید عالم
۳۔ گلگت بلتستان  از محمد حسین
۴۔ جی ۔ بی ۔ ٹریبیون
 ۵۔ Gilgit Baltistan Empowerment and Self-governance Order 2009  مطبوعہ حکومت پاکستان

Comments