تعلیم کا مرثیہ


انسانی تاریخ میں مختلف ادوار ایسے بھی    رہے ہیں، جب زور ِبازو ا نسان کے تمام و کمال کی سند تھا۔ جو شخص قوت ِ جسمانی کے بل پر مخالف کو پچھا ڑ دیتا یا میدان جنگ میں جوانمردی کا مظاہرہ کرتا، وہ معاشرے میں اتنی ہی عزت کا مستحق ٹھہرتا ،مگر وہ زمانے اپنی ریت اور رواج سمیت اب کہانیوں کا حصہ ہیں۔ آ ج کے انسان کے سامنے ایک ہی میدان کھلا ہے، جہاں جسمانی قوت کی بجائے دماغی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے۔ تیر ، تلوار ،نیزے کی جگہ خود کار اسلحہ نے لے لی ہے ، منجنیقیں تباہ کن میزائلوں میں ڈھل چکی ہیں اورلا محدود ممکنات انسان کی قو ت ِ تخلیق کے اختیار میں ہیں۔مخلوقاتِ ارضی نے انسان کی قوتِ تخلیق اور جستجوکے آگے جبیں رکھ دی ہے ۔
انسانی ترقی کے اس بے تکان سفر نے جہاں ایک عالم مسخر کیا،وہیں انسانی زندگی کوبھی ان گنت خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔فروعی اور لسانی جنگوں کے جنون میں مبتلا بیمار ذہنوں نے جنگی سائنس کی بے پناہ ترقی کے بل پر ایسے ہتھیار بنا لیے ہیں جو لمحہ بھر میں کرہ ار ض پر سے حیات اور اس کے آثار تک مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب دو اطراف سے فوجیں نہیں بلکہ دو سائنس دان برسرِ پیکار ہو ں گے اور ان کی انگلی کی ایک جنبش کرہءارض پر انسانی بقا اور نابودیت کا فیصلہ کرے گی۔علم کے ثمرات کا غلط استعمال اسی قدر ہولناک ہوسکتا تھا۔
 علم کو نبیوں کی میراث کہا گیا ہے۔جس نے اسے سینے سے لگایا ، وہ انسانیت کے معراج کو پہنچا اور جس نے اس گوہر نایاب کو نہیں پہچانا ،وہ مارا گیا۔علم انسانیت کا وہ تاج ہے جس نے انسان کو مخلوقات ِ ارضی و سماوی میں ممتاز کیا اور اسے خداوند تعالیٰ کے نائب کے پرشکوہ مسند پر فروکش کیا۔یہ تذکرہ گوایک مسلسل تکرار اور اعادے کے باعث اپنا اثر کھو رہاہے ، مگریہ حقیقت ہنوز مسلم ہے کہ علم وہ گوہر ہے جس کی دمک کے سامنے سب مال و دولت،رتبہ و مرتبہ اور شان و شوکت ہیچ ہے۔یہ علم ہی کا اعجاز ہے کہ وہ ایک جاہل اور غیر مہذب انسان کو ایک ذمہ دار اور بااختیار فرد میں ڈھال کر اسے معاشرے کا ایک لازمی جزو بنا دیتا ہے، جو نہ صرف اس کی ذات کو تمام زاویوں سے ایک انقلاب سے آشنا کرتا ہے بلکہ اس فرد ِ واحد کے اردگرد بسنے والے لوگ بھی علم کی خوشبو سے معطر ہوجاتے ہیں۔وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول میں ان گنت مثبت تبدیلیاں لے کر آتا ہے، جو ایک خوشگوار ، پرسکون اور متوازن زندگی کی ضامن ہوتی ہیں۔ آج علم کی اہمیت و افادیت کا راز سب پر آشکار ہو چکا ہے۔اقوام عالم اس حقیقت کے پیش نظر اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل تعلیم کے فروغ اور تقویت کے لیے صرف کر رہے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کی معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی خواندگی کے فروغ ہی سے ممکن ہوسکی۔دوسری طرف تیسری دنیا کے ممالک کی بدحالی، پسماندگی،غربت اور بھوک و احتیاج تعلیم کی عدم دستیابی کے نتیجہ ہے۔
پاکستان کا شمار بھی بدقسمتی سے انھی ممالک میں ہوتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح ِ خواندگی ۰۵ فیصد سے اوپر، جبکہ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق شرح خواندگی ابھی چالیس فیصد بھی نہیں۔ہمارے تمام تر مسائل کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح تعلیم کی عدم دستیابی ہی سے جاملتے ہیں۔موجودہ وقت میں بھانت بھانت کے مسائل نے ملک پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے۔ان حالات کے تناظر میں اہلِ دانش تعلیم کو وہ واحد راستہ بتاتے ہیں جو ہمیں اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔مگر حکومت کی بے حسی ملاحظہ ہو کہ شعبہ تعلیم کے لیے مخصوص بجٹ اس شعبے کی تنظیم نو اور ترقی کے لیے درکار بجٹ کا عشر عشیر بھی نہیں۔حکمرانوں کو اس صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے کہ پاکستان کی بھلائی شرح تعلیم میں خاطر خواہ اضافے سے مشروط ہے۔ 
صاحب ِ طرز ادیب ممتاز مفتی کہتے ہیں کہ جہاں شَکر ہوگی، وہاں چیونٹے ضرور آئیں گے۔ انھوںنے یہ بات مذہب کے تناظر میں کہی تھی۔ مدعا یہ تھا کہ مذہب کو نفع بخش جان کر نام نہاد علما اس کے ٹھیکیدار بن بیٹھے۔یہی بات علم کے متعلق بھی درست ہے۔نادانوں نے یہ نکتہ پکڑ لیا کہ دین کا علم مختلف چیز ہے اور دنیاوی علم اور ، بلکہ دینی علم ہی اصل علم ہے۔دنیاوی علم کار ِ بے بنیاد ہے اور اس کا حصول سراسر کفر ہے۔لہٰذا قرآن و حدیث اور فقہ ہی علم کا کل منبع ہے اور سائنس کی تعلیم صریح شیطانیت ہے، جو کفار کا مشغلہ ہے۔یعنی جان بوجھ کر مذہب و علم کی بنیادانھی اینٹوں سے رکھی ، جن سے ان کا ذاتی نفع مشروط تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹئے ،پتہ چلتا ہے کہ ہمارا درخشاں ماضی ہماری علم دوستی اور عمل کا     رہون منت تھا۔ تدریس و تحصیل علم ہی نے اس وقت کے مسلمانوں کو جہاں بھر سے ممیز کر رکھا تھا۔مسلمان سائنسدانوں کے عظیم علمی کارناموں نے سائنسی ایجاد و دریافت کو ابتدائی بنیادیں فراہم کی تھیں، جس پر اہل مغرب نے آج اپنی علمیت کے عظیم اور پرشکوہ مینار کھڑے کر رکھے ہیں۔انھیں بھی اس حقیقت حال کے اعتراف میں کوئی باک نہیں  سائنسی ترقی کے سفر میں اولین قدم مسلمان سائنسدانوں ہی نے اٹھایا اور اس منزل کی خشت اول انھیں کے ہاتھوں رکھی گئی۔یورپ کی جامعات میں جابر بن حیان،ابن الہیثم ، البیرونی، اور الخورزمی کے سائنسی نظریات اور نکات ِ نظر آج بھی پڑھائے جاتے ہیں۔دراصل قرآنی تعلیمات اور ہمارے اجداد کے علم و عمل کا درست مصرف ہماری بجائے اہل ِ مغرب کو سمجھ آیا ہے، جنھوں نے اس کی اصل روح پر غور کیا اور اس کے پوشیدہ مطالب کا سر ا ان کے ہاتھ آگیا۔یہی وہ اسم اعظم تھا جس نے ان کی قسمت بدل دی۔ ہم ان مقدس آیات کی تلاوت کرتے رہ گئے اور غور و فکر کی تکلیف گوارا نہ کی۔نتیجہ مکافاتِ عمل کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ آج نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری امت مسلمہ کو از سر نو اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے اور یقینا علم ان میں سرفہرست ہونا چاہیے۔
نام نہاد علما نے اپنے مفادات کے سانچے میں ڈھلے ہوئے اسلام کی تبلیغ یوں کر دی کہ اس میں سائنس کو رد ِاسلام ظاہر کیا۔حالانکہ جتنی مرتبہ خداوند تعالیٰ نے کائنات کے متعلق غور و فکر کا حکم دیا ہے، اتنی مرتبہ عبادت کا بھی نہیں دیا۔لہٰذا یہ دین اسلام کی روح سے خیانت ہوگی اگر محض اپنی دکان چمکانے اور اپنا سماجی دبدبہ قائم رکھنے کے لیے لوگوں کو اصل موضوع سے بھٹکا کر لفظی و سطحی زہد و عبد کی طرف مائل کیا جائے۔مجھے یہ دعوی کرنے میں کوئی باک نہیں ، بلکہ اس کی تصدیق مستند علما، و مشائخ کرتے ہیں کہ سائنس و اسلام دو مختلف میدان نہیں بلکہ جزو لاینفق ہیں۔ سائنس کی تعلیم قرآن کی تعلیمات میں شامل ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک ہم نے سائنسی علوم کے حصول کی سنجیدہ کوششیں کیں،زمانہ ہماری عظمت اور شوکت کا معترف رہا ،مگر جب سے ہم نے یہ میدان چھوڑا یہ عظمت اور شان و شوکت بھی رخصت ہوگئی۔وہ زمانے پھر واپس آسکتے ہیں۔وہ عظمتِ رفتہ پھر ہمارا مقدر ہوسکتی ہے۔ہمیں صرف علم دوستی اور علم پروری کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔محض ’پدرم سلطان بود‘ کا آلاپ کرنے سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Comments