جان علی۔… محروم طبقے کی آواز


تحریروتحقیق:عزیز علی داد مترجم: شیر زمان خان


 جان علی شینا زبان کے قادر الکلام شاعر اور منجھے ہوئے گلوکار ہیں۔وہ زبان و بیان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ان کے کلام میں ایک نوع کی بے ساختگی ، گھلاوٹ اور لوچ ہے۔انھوں نے سماجی، سیاسی اور عشق و محبت کی وارداتوں کو موضوع سخن بنایا، اور ہر معاملے میں روایت شکن قرار پائے۔ان کی عشقیہ شاعری روایتی اور نئے شعراءکے کلام کے برعکس معانی و معارف سے بھرپور ہے اور اس میں کسی نہ کسی حوالے سے زندگی کے حقائق کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔جان علی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ شینا زبان و ثقافت کی ترویج کے لیے مخصوص رکھا اور پیرانہ سالی کے باوجود ان کے اس جذبے میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی۔محترم عزیز علی داد صاحب نے جان علی کے کلام کو تنقید کے مراحل سے گزارا ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات و واقعات کو اس صاحبِ نظر فنکار کے نظرےے سے پرکھنے کی سعی کی ہے، اور میری ناقص رائے میں یہ اپنی نوع کی پہلی کاوش ہے۔ان کا یہ دقیق مضمون پہلی مرتبہ انگریزی میں چھپا تھا۔علاقے میں انگریزی خواندگی کی کمی کے باعث اسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ امید ہے یہ اس نوع کی مزید کاوشوں کے لیے د ر وا کرنے کا باعث ہوگا۔  (مترجم)

 معاشرے میں ذات پات کی تفریق سیاسی، سماجی، معاشی اور طبقاتی نظام کی مرہونِ منت ہے، جو کسی مخصوص طبقے کوپورے معاشرے کے طاقت سے محروم طبقوں پر اپنی اجار ہ داری قائم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔اطالوی مارکسسٹ انتونیو گرامسچی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”قید کی کتاب سے ےاداشتیں“ میں ان پسے ہوئے طبقات کے لیے، جو بااثر طبقے کے ظلم وجورکا شکار ہیں، Subaltern یعنی ”محروم طبقات“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔معاشرے کے اس طبقے میںہاری، مزدور اور وہ لوگ شامل ہیں، جن کی معاشرے میں طاقت اور اقتدار تک رسائی نہیں۔لہٰذا معاشرے میںان کا وجود مقتدر طبقے کے رحم و کرم پرہے۔ محروم اورپسے طبقے متحد و متفق نہیں ہوتے ، لہٰذا وہ طاقت اور اختیارات سے دور ہتے ہیںاور معاشی ترقی اور سیاسی نظام سے بھی اسی قدر فاصلے پر ہوتے ہیں۔اس گروہ کی مناسب نمایندگی بھی نہیں ہوتی ،کیونکہ معاشی، سیاسی اور قانون سازی کے ادارے بااثر طبقے کے مفاد ات کے لیے سرگرم ِ عمل ہوتے ہیں۔  

گلگت بلتستان کا علاقہ بھی گزشتہ چھے دہائیوں سے پاکستانی قانون ساز اداروں کی عدم توجہی اور اختیارات کی عدم فراہمی کے باعث شدید محرومی کا شکار ہے۔مقامی طور پر علاقے کی ثقافت ، مسلکی ا ور فروعی گروہوں کے رحم و کرم پر ہے، جو علاقے کی درخشندہ روایات کا خاتمہ اور اپنے تنگ نظر اور محدود نظریات کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اس علاقے میں روایتی طرزِ حکومت اور سماجی نظام کے خاتمے سے مسلکی اور فرقہ وارانہ قوتوں کو عروج حاصل ہوا۔گلگت بلتستان کی تاریخ کے اس موڑ سے لوگوں کی زندگی کے معنی بدل گئے اور سماجی بنیادوں اورسماجی اداروں کے وجود روبہ زوال ہوا۔اس سماجی نظام نے ثقافتی سرگرمیوں اور ان کے فروغ کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کررکھی تھیں۔ان دیرینہ روایات سے ناتا توڑ کر گلگت بلتستان کا موجودہ معاشرہ ایک خلا میں سانس لینے کی سعی کررہا ہے۔متبادل نظام کی عدم دستیابی نے معاشرے کو مذہبی بنیادپرستوں کا آسان شکار بنا دیا ، جنھوں نے اس خلا کو اپنے مخصوص نظریات سے پُر کرنے کی کوشش کی۔یہ نظریات مقامی ثقافت اور علاقے میں مروّج مذہبی بقائے باہمی کے تصور کے بالکل خلاف تھے۔اپنے نظریات کے فروغ کے لیے انھوں نے مقامی ثقافتی رسوم و رواج کو محدود کر دیا۔ معاشرے کے باشعور افراد کو ان بنیاد پرست رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس مخصوص نکتہ نظر کا تعین اور طریقہ¿ کار کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا، جو مستقبل میں مقامی ثقافت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔بد قسمتی سے مذہبی بنیادپرستوں، سماج اور سیاسی حلقوں کے ہاتھوں مقامی ثقافت کے تنزل کے باوجود ، علاقے کا باشعور طبقہ علاقے میں ثقافت اور مذہب کے مابین طاقت کے عدم توازن کی وجوہات تلاش نہ کرسکا۔ 

خلافِ توقع گلگت کے جدید معاشرے کو جان علی کی شکل میں شینازبان ،مقامی روایات کا نمایندہ اور معاشرے کا نبض شناس ہاتھ آیا ہے۔انھوں نے خود کو شینا شاعری اور گلوکاری کے لیے وقف کر رکھا ہے۔وہ جدید احساسات و تجربات کو روایتی شینا شاعری میں ڈھالنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔وہ جدید احساسات کو روایتی سانچوں میں ڈھال کر گلگتی معاشرے کی اقدار، ثقافت، نفسیات، معیشت، اور سیاست میں نئے معنی پیدا کرتے ہیں۔جان علی فنکار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،جو تاریخی لحاظ سے گلگت کا سب سے محروم طبقہ ہے۔ گانے بجانے جیسے فنکارانہ عوامل پر معاشرتی قدغن کے باوجود اس برادری نے روایتی موسیقی، اور اس سے وابستہ علم و ہنر کو اپنے بل بوتے پرصدیوں زندہ رکھا۔ گلگت بلتستان کی سیاسی و معاشی محرومی اور مقامی ثقافت ، مذہب اور ریاست کے مابین چپقلش کا نوحہ جان علی کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔وہ سیاسی ، سماجی، مذہبی فسادات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اذیت کا ذکر حقیقی اور تاریخی حالات وواقعات کی روشنی میں کرتے ہیں، تاکہ معاشرے میں طبقاتی محرومی کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جاسکے اورمحروم طبقات کی رہنمائی اور پرداخت کے ذریعے انھیں ان کے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد اورطبقاتی جنگ میں شریک کیا جاسکے ۔ےہ وہ حکمتِ عملی ہے ،جسے معروف اطالوی مارکسسٹ انتونیو گرامسچی نے معاشرے کے باشعور افراد کی اہم ذمہ داری قرار دیا ہے۔ لوگوں کی سیاسی محرومی کا ذکر جان علی ان
الفاظ میں کرتے ہیں:

 شونگ تھے مور تھا، زمانہ ہشیار بی لِن

 گلتیچ گلیتو کرے اختیار بی لِن 

مئے سارگن گلیت تھئے کھچی حال بی لِن

 تُو ٹھک درینو نومچ انتقال بی لِن

 خبردار، اپنی آواز پست رکھنا، زمانہ ایک مخبر ہے

 گلگت کے لوگوں کو گلگت پر اختیار کب حاصل رہا ہے؟ تاکہ وہ اپنی تقدیر کا آپ فیصلہ کرسکتے

 آہ پیارے گلگت، تمھیں اجنبی ہاتھوں میں سونپ دیا گیا 

جان علی اپنی شاعری کو معاشرے کے پوشیدہ دکھوں کی صدا سمجھتے ہیں، جنھیں وہ الفاظ کا روپ دے کر طشت ازبام کرتے ہیں اور یہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔وہ اپنی شاعری میں معاشرے کے منافقانہ رویوں پر بے لاگ تنقید کرتے ہیں، جس کی غیرمنصفانہ تقسیم کی بدولت کچھ لوگ چوری اور دھونس دھاندلی سے راتوں رات امارت کے درجے کو پہنچجاتے ہیں۔یہ بدعنوان نودولتیے رسوم و رواج اور ظاہری عبادات کے ذریعے اپنی مذہبی حیثیت کی کھلی تشہیر کرتے ہیں، ان مذہبی پیشواو¿ں کے ہاتھوں مذہب اپنا اثر کھوچکا ہے۔جان علی ان لوگوں کے لیے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہےں، جو بدعنوانی سے متعفن وجود کو مذہب کے خوبصورت لبادے میں ملفوف رکھتے ہیں۔وہ شاندار جرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے معنی رسوم و رواج کو ٹھکرادیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

 ایک گلاسیک مو پی مئے نماز نے بین تو رشوتئے او گھی کھے تُس رُزہ گینا

 اک کنالئے نقلی دے شُوقہ گینا

 قیامت گہ فت تھے، دُنیاتئے فائدہ گینا

 حضرت! محض ایک جام سے میرے تمام سجدے رائیگاں چلے جاتے ہیں 

مگر آپ کا روزہ رشوت کی سحری کھا کر بھی مقبول ہوا 

ایک کنال زمین کے ناجائز انتقال کے عوض آپ نے خلعت قبول کر لی

 یوں آخرت کے اجر پر دنیاوی نفع کو ترجیح دی

 جان علی مذہب کے ٹھیکے داروں کی وضع کردہ تعلیمات کو رد کرتے ہےں۔وہ مذہب میں درجہ بندی ،مذہبی عہدوں اور اداروں کی تقسیم کے قائل نہیں، کیونکہ مذہب اور مذہبی اداروں کومذہب کے ٹھیکیداروں نے اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔

 تھئے مسجد گہ بس، مہ تھئے حمام گہ بس

 جنت تئے حورانی مئے غلام گہ بس

 فساد گیر عالم تُو مئے امام گہ بس 

فساد دوٹ ٹک تھرے تھئے اسلام گا بس 

مجھے تیری مسجد کی ضرورت ہے، نہ تیرے حمام کی حاجت

 مجھے بعد از مرگ حوروں کا انعام بھی درکار نہیں

 اے فسادی عالم! تو میری امامت کا اہل نہیں

 مجھے ایسے مذہب سے سروکار نہیں جو فساد کا باعث ہو

 حسن اتفاق سے جان علی کے اس گانے کے منظرعام پر آنے کے بعد ہی گلگت شہر میں واقع مجسٹریٹ کے دفتر کو ، جس میں زمین کے انتقال کا ریکارڈ رکھا ہوا تھا،مشتعل افراد نے آگ لگادی اور پھر شہر کی دو بڑی مساجد کو اشتعال پھیلانے کے الزام میں بند کردیا گیا۔بہرحال جان علی مذہب کے تقدس کا احترام کرتے ہےں۔وہ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتے ہےںکہ وہ مذہب کے نام نہاد ٹھےکے داروں سے نجات حاصل کرلیں، جو خدا تعالیٰ کی عظیم ہستی کو محض ایک جلاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد عالم اس اہل نہیں کہ وہ خدا جیسی ذات کا مفہوم سمجھ سکیں۔ وہ منبر و محراب کے بھی اہل نہیں، جنھیں وہ خدائی احکام کے برخلاف،محض نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔دوسری طرف جان علیسیا ست دانوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جن کا واحد مقصد غریبوں کا خون چوس کر اپنی تجوریاں بھرنا ہے۔

 بَیس ووٹ دے کھڑا تھیگیس سو گدائے

 ممبری بی گے نت کھا فنو رُوپائے

 ہم ہی نے تمھیں ووٹ دے کر ممبر بنایا 

اے ندیدو، اب چاہو تو سارا خزانہ نگل لو

 وہ مذہب کے معاملات پر نام نہاد عالموں کے ذاتی اختلافات کے سخت ناقد ہیں۔

 کے کلمہ رام شہ ہن کلمائی 

فساد تھریتا زمانئے علمائی

 منبروچ کے باشنت لا شوئی گہ کائی 

کہو میں تمھارے چھ مختلف کلمات میں سے کون سا کلمہ پڑھوں؟

 اے نام نہاد عالمو، تم نے فساد کا بیج بو دیا

 منبر سی مقدس جگہ سے مغلظات بکتے ہو؟

 گزشتہ تین دہائیوں سے گلگت بلتستان کا معاشرہ ثقافت کی بجائے مسلکی حوالوں سے پہچانا جانے لگا ہے۔مقامی ثقافت مسلکی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو کر اپنی وقعت کھوچکی ہے۔جان علی ثقافت کو معاشرے میں اتحاد و اتفاق کا منبع گردانتے ہیں۔ علاقے میں مروج فرقہ واریت علاقائی ثقافت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، کیونکہ یہ ہر اس چیز کو رد کردیتی ہے ، جو اس کے محدود معیارپر پوری نہ اُترے۔ مذہبی طاقتیں علاقے میں کوئی اور ہی اسلام لانا چاہتی ہیں۔ جان علی گلگت کی سرزمین پر فرقہ وارانہ فسادات کو مخصوص مفادات کے حصول کی جنگ قرار دیتے ہیں۔یہ مسلکی تقسیم مقتدرطبقے کی ایما پر ہورہی ہے ،جو نوآبادیاتی نظام کی آزمودہ پالیسی”پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو“ ، پر عمل پیرا ہے۔جان علی کہتے ہیںۛ

 مئے سارگن گلیت گن جیکو جیک تھرے

 درینے وائی، ارینوچ اٹیک تھرے

 افسوس میرے پیارے گلگت کے ساتھ کیسی انہونی ہوگئی

 بیرونی عناصر نے لوگوں کو آپس میں لڑا کر خون بہا دیا 

لوگوں کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرکے دراصل اس لازوال رشتے اور وابستگی کے جذبے کو بس میں کرنے کی کوشش کی گئی، جو مقامی لوگ اپنے ثقافتی ورثے سے رکھتے ہیں۔چونکہ یہ عظیم ثقافتی ورثہ زیادہ تر گانوں ، لوک داستانوں، علمِ ارواح،فرضی کہانیوں،اور زبانی تاریخ پر مشتمل ہے، لہٰذا مذہبی جنونی شینا زبان کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ فرقہ وارانہ فسادات ان علاقوں تک محدود ہےں، جہاں شینا بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ مقامی علم و حکمت کا ذریعہ¿ اظہار مقامی بولی ہے، جبکہ مسلکی گروہ اظہارِ رائے کے لیے تحریر و تالیف پر تکیہ کرتے ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات کے اس گھٹن زدہ ماحول میں شینا زبان ہی مسلکی گروہوں کے خلاف احتجاج کا ذریعہ بنی، جو اپنے مخصوص نظریات کے پرچار کے لیے تشددکو جہاد کا نام دیتے تھے۔ جان علی نے بنیاد پرست قوتوں اور بدعنوان ارباب اختیارکی اصلاح کے لیے شینا زبان کو ذریعہ¿ اظہار بنایا ، جس میں وہ اشارے کنائے اور علامت نگاری کے ذریعے اپنے مافی الضمیرکو الفاظ کا جامہ عطا کرتے ہیں۔دوسری جانب وہ گلگتی معاشرے کی ان مشکلات کو بھی الفاظ کا پیرہن عطاکرتے ہیں، جو روایات اور جدت کی باہمی چپقلش نے اسے عطا کی ہیں۔اس طرزِ عمل سے جان علی شینا کلچر کو متوازن اور معتدل رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں، جو مذہبی بنیاد پرستوں اور ارباب بست و کشاد کی ریشہ دوانیوں کے ہاتھوںےرغمال بنا ہوا تھا۔اس کاوش نے انھیں شینا زبان و ادب کی تاریخ میں جاوداں کر دیا ہے۔

Comments