گلگت بلتستان کا سیاسی کلچر


سنجیدہ قومیں اپنے حقوق و فرایض کا ادراک اور ان کے حصول و ادائیگی کا مناسب اہتمام کرتی ہیں۔ملکی قوانین کی روشنی میں عوام کوجو حقوق اور اختیارات تفویض ہوتے ہیں ،ان کا موثر استعمال نہ صرف معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی کا ضامن ہے ، بلکہ اس سے عوام کی زندگیوں میں بے شمارآسائشیں اور سہولیات بھی پیدہوتی ہیں۔ان گونا گوں اختیارات اور حقوق میں سے انتخاب کی طاقت یعنی ووٹ سب سے اہم ہے۔اپنے درمیان سے ایک اہل اور بااختیار شخص کو بطور عوامی نمایندہ منتخب کرکے حکومتی ایوانوں میں بھیجنا ، بلاشبہ ایک بڑی عوامی طاقت ہے، جس کا درست استعمال قومی زندگی میں ترقی اور بہتری کی ضمانت دیتا ہے۔ووٹ کی طاقت کا اعتراف اور اس کی اہمیت کا احساس جمہوریت کی کامیابی ہے۔دنیا کی عظیم جمہوری طاقتیں محض اسی لیے سر اُٹھا کر چلنے کے قابل ہوسکیںکہ انھوں نے عوامی طاقت کو عزت اور اہمیت دی اور قومی مفاد میںعوام الناس کی مرضی اور خوشی کو اولیت بخشی۔برطانیہ، امریکا، فرانس اور بھارت ایسے ممالک جمہوریت کا پھل چکھ رہے ہیں، جسے انھوں نے ذاتی مفادات کی قربانی، قومی مفادات کے حصول اور انتھک جدوجہد سے سینچا۔ ووٹ ایک عوامی حق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم قومی ذمہ داری بھی ہے، جس کی موثر اور بروقت ادائیگی ہر شہری کا اولین فرض ہے۔شہری پر لازم ہے کہ وہ اس حقیقت کا بخوبی احساس کر لے کہ اس کے ووٹ ہی سے ملک و قوم کے مستقبل کا تعین ہوگا۔اُسی کے ووٹ سے آیندہ پانچ برسوں کی بہتر یا ابتر قومی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔لہٰذا وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے کہ وہ اپنا بیش قیمت ووٹ جس امیدوار کی جھولی میں ڈال رہا ہے ،وہ اس بارگراں کو کاندھا دینے کا اہل ہے یا نہیں۔ گلگت بلتستان میں روزِاول سے سیاست کا روایتی غیر موثر اور ناقص نظام رائج ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ آج بھی جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ ور نہ ہوسکا۔کئی دہائیوں قبل جہاں سے ہم نے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا، ہماری کشتی وہیں لبِ ساحل لنگرانداز ہے۔ایک ایسے دور میں جب اقوامِ عالم جمہوریت کو قومی ترقی و کامیابی کی ضمانت قرار دے چکی ہیں، بلکہ اس کے ثمرات سے بھی بہرہ ور ہورہی ہیں، ہم نے ہنوز ، اس سفر میں اپنا رخ متعین کرنا ہے۔اس مقصد کے لیے جو اولین اقدامات کرنا ہونگے ، ان میں لوگوں کو سیاست کی بنیادی تعلیم کی فراہمی، اس کے مقاصد و معارف سے متعلق آگہی اور سیاست کی قومی زندگی میں اہمیت کا شعوراجاگرکرنا شامل ہیں۔اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ علاقے کے عوام کی اکثریت سیاست کے رموز و اسرار سے نابلد ہے۔انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ ووٹ ایک عظیم قومی ذمہ داری ہے، جسے احسن طریقے سے نبھانے سے ان کی زندگی میں بہتری آئے گی۔انھیں بنیادی سہولیات حاصل ہونگی۔قومی سطح پر ان کا تشخص بحال ہوگا۔کوئی خطہ ان کے حقوق غصب نہیں کر سکے گا اور انھیں کمزور اور نااہل سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔ اس وقت علاقے میں مروج سیاسی نظام نہایت مایوس کن ہے۔ایسا نہیں کہ یہاں سیاست کے تقاضے نہ نبھائے جاتے ہوں،یہاں سیاسی اور جمہوری کھیل کے تمام لوازمات بہم پہنچائے جاتے ہیں۔انتخاب کی کارروائی مکمل ہوتی ہے۔لوگ جوق در جوق آکر ووٹ دے جاتے ہیں۔امیدوار وں میں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔افواہیں ہوتی ہیں، اندازے لگائے جاتے ہیں،سازشیں ہوتی ہیں۔مخالفین پر کیچڑ اُچھالا جاتاہے۔یہ سب کچھ ایک بے روح جمہوریت کے نام پر ہوتا ہے، جس کا وجود ببانگ دہل نعروں اور پرجوش تقریروں میں سانس لیتا ہے اور عمل کے میدان میں صر ف اس کا بے کفن لاشہ باقی ہے، جسے ہر امیدوار پرچم بنا کر ساتھ لیے پھرتا ہے اور ووٹ اکٹھے کرتا ہے۔امیدوار بھی سیاسی لحاظ سے غضب کے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ عوامی خدمت، جذبہ¿ ملی، خلوص ِنیت اور ایمانداری جیسی اقدار کے برعکس ، سیاست اور اقتدار کو ایک نفع بخش کاروبار گردانتے ہیں۔اقتدار کو عوامی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ مطلق العنان حکمرانی کا وسیلہ سمجھاجاتاہے۔یہی وجہ تھی کہ ایک امیدوار انتخابات جیتنے کے بعد اپنی حیثیت فراموش کر بیٹھا اور خاک نشینی کا خوگر مسند نشینی کا طالب ہوگیا۔یہ واقع مدتوں مختلف حلقوں میں زبان زدِ خاص وعام اور میڈیا کی زینت بنا  رہا۔سیاست میں حصہ لینے والے لوگ زیادہ تر جاگیردار اور اشرافیہ ہیں۔یہ تو قاعدہ ٹھہرا کہ انتخابات میں حصہ وہی شخص لے، جس کے پاس لٹانے کو بہت سا فالتو پیسہ موجود ہو۔اقتدار کی اس رسہ کشی میں ووٹ سمیٹنے کے لیے تمام وسائل اسی یقین کی بدولت صَرف ہوتے ہیں کہ بعد میں یہ پیسہ سود سمیت وصول ہوگا۔ گلگت بلتستان کے عام لوگ اپنی نادانی اور سادگی میں اس غیر موثر نظام کی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں۔اگروہ اپنے رویے میں تبدیلی لے آئیں اور اپنے نمایندوں سے سوال کریں کہ عوام کے قیمتی ووٹوں کی غایت کیا ہے؟ کیا یہ اس لیے ڈالے گئے کہ کچھ لوگ راتوں رات عوام کے پیسوں سے اپنی قسمت بدل لیں ؟ یا اس لیے کہ عوام کے خادم فرعون بن کر عوام کی تقدیر کا فیصلہ کریں؟ مگر عوام میں ابھی یہ مزاج پیدا نہیں ہوسکا۔وہ اب بھی جمہوری تقاضوں کے بر خلاف برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ انھیں اس امر سے قطعاً تعرض نہیں کہ امیدوار اہل ہے یا نہیں۔ برادری اپنا فیصلہ سب پر مسلط کردیتی ہے کہ فلاں ابن فلاں کو ووٹ دیا جائے گا، اس فیصلے میں سیاسی سمجھ بوجھ اور امیدوار کی اہلیت کا معاملہ خارج از بحث ،جبکہ خاندانی تعلقات اور سماجی تعاون کو پیش نظر رکھا جاتاہے۔اگر کوئی سمجھ دار شخص اس فیصلہ کے برخلاف کسی اہل امیدوار کو ووٹ دے بیٹھے، تو وہ برادری کے عتاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔اس سے سماجی قطعِ تعلق کیا جاتا ہے اور جیت کی صورت میں ممکنہ سیاسی فوائد میں اس کا حصہ نہیں ہوتا۔ جمہوریت گو ایک پسندیدہ نظام حکومت سہی ، مگر یہ کسی بھی نظام کی مانند نقائص سے مبرا نہیں ہوسکتی۔دنیا میں معدودے چند ممالک ایسے ہیں ،جو خرابیوں سے پاک شفاف نظام کو فروغ دینے میں کامیاب ہوسکے۔ جن ممالک میں جمہوریت صحیح معنوں میں جمہور کی امنگوں کی ترجمان اور ان کے حقوق کی محافظ ہے، وہاں اس بات کا خصوصی اہتمام ہے کہ حکومتی معاملات آئین کے تناظر میں انجام پاتے رہیں اور حکومت انھی اقدامات و احکامات پر صاد کرے ،جن کی عوام میں مقبولیت مسلم ہو۔عوام کی عدالت میں جوابدہی کااحساس حکومت کے لیے دوسرے ضمیر کا کام کرتا ہے او دوسری طرف ارباب اختیار کو احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مادر وطن میں گنگا ہی الٹی ہے۔عوامی فلاح تو رہی ایک طرف، یہاں پر نافذ العمل بیشتر قوانین بیرون ممالک رہنے والے اعلیٰ دماغوں کے تفکر کی کرشمہ سازی ہے،جن کا اولین مقصد انھی ممالک کے وسیع مفادات کا تحفظ ہے۔عوام پر براہ راست اثر انداز ہونے والا بجٹ بھی بیرون ملک ترتیب پاتا ہے۔لہٰذا وطن عزیز میں جمہوریت نما آمریت نافذ ہے،جس کے حصص دنیا بھر کی غاصب قوتوں اور ملک کے بے ضمیر سیاست دانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کی صوبائی نما طرز حکومت نے اپنا لنگڑا لولا پن اسی نظام سے مستعار لیا ہے۔ اس حکومت کے زیر سایہ ایسے گھناونے جرائم پنپ رہے ہیں ،جو کسی بھی معاشرے کی بنیادوں کو گھن کی طرح چاٹنے کے لیے کافی ہیں۔حکومت کی ناک کے نیچے سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔اندھے کی ریوڑیوں کی مانند یہ بھی اپنوں ہی کے حصے میں آئیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ بلتستان میں عزت مآب وزیر اعلیٰ کی پوری انتظامیہ ایک کلرک کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے، جو علی الاعلان سرکاری نوکریاں فروخت کرتا ہے۔گلگت بلتستان کے گورنر کی سیاسی زندگی کی مثال قدیم روم کے اکھاڑے میں ایستادہ بہادر ”گلیڈی ایٹر “ کی سی ہے ، جسے شکست کا منہ دیکھناگوارا نہیںہوتا۔فرق محض اتنا ہے کہ گلیڈی ایٹر کی عظیم فتح میں اس کی جوانمردی، بہادری اور ہمت کارفرما ہوتی تھی، جبکہ چالیس سال تک ناقابل تسخیر رہنے والے اس دیسی گلیڈی ایٹر کے پیچھے سادہ لوح عوام کا اندھا اعتقاد اور سرکاری مشینری کھڑی ہے۔گورنر صاحب حسن اتفاق سے مرشدو مربی بھی ہیں،جو اپنی روحانی قوتوں اور گورنری کی چھڑی سے عقیدت مندوں کی قسمت پلٹ چکے ہیں۔ وہ بھی ایسوں کی جو اس مقام و مرتبے کے ہرگز لائق نہ تھے۔ بے شک ایسے ہی عوامل معجزات کے زمرے میں آسکتے ہیں۔غرض موجودہ حکومت کرپشن، دھاندلی،بدعنوانی اور اقربا پروری کی جس طرح سرپرستی کر رہی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ گلگت بلتستان میں حکومت کا طرز عمل اور انتظامی صورت حال اس قدر حوصلہ شکن ہے کہ اہل شعور علاقے کے مستقبل سے مایوس ہوچلے ہیں۔خصوصاًپڑھا لکھا طبقہ اس روایتی کھیل سے نالاں ہے ۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ اس نظام کا قلع قمع کیا جائے اور ایک ایسا سیاسی نظام وضع کیا جائے جس میں انتخاب سے لے کر تقرر تک ہر عمل میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ بحال رہے اور وٹ کا اصل حق ادا ہوسکے۔حکومتی فیصلوں اور احکامات میں عوام کی مرضی شامل ہواور حق دار کو اس کا حق حاصل ہوسکے۔یہی وجہ ہے کہ عوام بھی اب اپنی نمایندگی کے لیے متبادل نظام اور نمایندوں کی تلاش میں ہےں۔غذر میں قوم پرستوں کی جیت اسی نئی سوچ کا آئینہ دار ہے،جسے نوجوان طلبہ نے اپنے عزم اور قوتِ بازو سے جلا بخشی۔ان نوجوانوں نے صحیح معنوں میں نظام کی خرابیوں کے نتائج بھگتے ہیں۔ اس خرابی نے ا س اذیت اور ذہنی کرب کو جنم دیا ، جس نے آج کے نوجوان کو اس باغی کے روپ میں ڈھالا ہے ،جو اس عفونت زدہ معاشرتی و سیاسی نظام کے بخیے ادھیڑ کر ایک شفاف نظام قائم کرنے کے لیے سرگرم ہے، جس میں وہ جلد و بدیر کامیاب و کامران ٹھہرے گا۔

Comments