Skip to main content
الواعظ اب ج صاحب متنوع الجہت ،متحرک اور معقول انسان ہیں۔علم دوست ہیں اور تحصیل و تدریس علم کے مشاغل میں ہر لحظہ مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔چونکہ ناصح ٹھہرے لہذامعقولیت کے ساتھ ساتھ مقبولیت بھی حاصل ہے۔ارادت مندوں کا حلقہ نہایت وسیع ہے۔شخصیت کی جاذبیت ان کے ہر اک انداز سے مترشح رہتی ہے اور اس حقیقت کا انھیں بخوبی احساس ہے لہٰذا وہ اس خوبی سے اعتماد کی آب بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ ایک دو مرتبہ ان سے مصافحہ کی سعادت نصیب ہوئی اور میں ان لمحات کو اپنے لیے باعث ا فتخار جانتا تھا،تا ٓنکہ موصوف کی شخصیت کے ایک ایسے پہلو سے شناسائی ہوئی جس سے میرے آبگینوں کو ٹھیس لگ گئی۔عقیدت و احترام کی سوندھی مٹی سے اٹھائے محل لمحوں میں مسمارہوگئے۔زندگی اپنے تلخ تجربات کا ایک نیاباب کھول چکی تھی۔مجھے احساس ہوا کہ ہرشے اپنے باطن میں کچھ او ر ہی چہرہ کیے ہوئے ہے جو ظاہری آنکھ کی قوت مشاہدہ سے اوجھل رہتاہے۔
کرنل محمد خان نے جب لکھا کہ لاعلمی بڑی نعمت ہے، تو میں نے ادب سے کرنل موصوف کی پیشہ ورانہ دوری کے باعث اسے ان کی کم علمی پر محمول کیا اور رائج فلسفے سے روگردانی خیال کیا۔اب غور کرتا ہوں تو اس کے معانی نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ الواعظ صاحب سے میری ارادت تب تک قائم رہی جب تک میں ان کے”فکر و نظر“ کی حشر سامانیوں سے بے خبر رہا۔جوں ہی علم نے آنکھوں سے تقلید و ارادت کا دبیز پردہ نوچ ڈالا ،سب کچھ عریاں ہوگیا۔ الواعظ اب ج صاحب وعظ نصیحت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے بھی شغل فرماتے ہیں۔چند ایک کتابیں بھی لکھ رکھی ہیں۔مقامی خبارات میں متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک مجلہ بھی جاری کرتے ہیں۔ یہ تمام عوامل یکجا ہوکر واعظ موصوف کو شمال کی سطح پر آسمان شعر و ادب کا درخشاں ستارہ بنا تے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کچھ عرصہ پہلے ایک محترم خاتون نے مقامی اخبارات میں انھیں بیک جنبش قلم عصر حاضر کا عظیم قلم کار ٹھہرایا۔ خیر یہ فریضہ انھوں نے سراسراپنی ذمہ داری پر نبھایا تھا،اس پر معترض ہونا کج بحثی ہوگی۔قصہ کوتاہ کرکے میں اس واردات کا تذکرہ کرتا ہوں جس سے میرے قلب و روح پر زلزلے کی سی کیفیت ہے۔
گزشتہ دنوں الواعظ صاحب کا ایک کالم نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنے کمرے کے پرلطف ماحول کی اہمیت،اپنی جاپانی کراکری اور دبیز قالین کی افادیت،اور نوکر کی وفاداریوں کے تذکرے کے بعد اپنے تخیل کا رخ اپنے کارینس پر سجے ہوئے گلاب کے پھول کی جانب موڑ دیا جو ان کا نوکر ان کی تفریح ِ طبع کی خاطر چھوڑ گیا تھا۔انھوں نے گل رنجور کے باطن میں جھانک کر ،اس کے لاشعور کی چھان پھٹک کے بعد اس کا مافی الضمیر صفحہ قرطاس پر منتقل کردیا اور اس کی آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کی سعی کر ڈالی۔ہم اپنی کم علمی کے سبب گلاب کے پھول،قالین، چائے کے پیالے اور ان جیسی دیگر لوازمات کا کوئی باہمی تعلق تو نہ ڈھونڈ سکے مگر ذہن میں کوندا سا لپک گیا۔ یکایک یادداشت کے کئی بند در وا ہوگئے۔مجھے یاد آیا کہ مذکورہ کالم کا متن کئی سالوں سے میرے ذہن میں محفوظ ہے۔
پرانی کتابیں کنگھالیں تو نصاب کی وہ کتاب بھی ہاتھ آ گئی، جس کے مضمون”ایک گلاب کے پھول کی آپ بیتی“ کو الواعظ صاحب نے اپنے ”فکرو نظر“ کی کرشمہ سازی بناکر ہم جیسے ان پڑھ یا نیم خواندہ قارئین کی خدمت میں پیش کردیا ۔
یہاں یہ نکتہ صاف کرنا ضروری ہے کہ مکرم کالم نگار نے اس مضمون سے محض استفادہ نہیں کیا بلکہ اسے ہوبہو،لفظ بہ لفظ نقل کیا ہے۔ کتاب مذکورہ کا ٹائٹل ”مرقع اردو “ ہے اور یہ پولیمر پبلشرز اردو بازار لاہور سے چھپی ہے۔واعظ صاحب جب فرسٹ ائیر میں پڑھتے تھے ،تب یہ کتاب غالباً ان کے نصاب میں شامل تھی۔ یہ امر مجھے حیران کیے دیتا ہے کہ انھوں نے یوں سرعام ہر ایک کے زیر مطالعہ رہنے والی کتاب
سے مضمون کیونکر لیا ۔شاید وہ اپنی لیاقت اور باقی سب کی جہالت کے اتنے قائل تھے کہ انھوں نے فرض کر لیا کہ کسب علم میں وہ واحد و یکتا ہیں اور دیدہ دلیری سے اسے چھاپ بھی دیا ۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا انجام دینا تو دور کی بات،اس کے متعلق سوچنے سے میرے جیسا معمولی طالب علم بھی قاصر ہے،چہ جائیکہ علم و ادب کا ایک معروف نام ۔ واعظ صاحب نے دانستہ یا غیر دانستہ ،ایک ایسا عمل کیا جو ملکی قانون و ضابطہ کی رو سے قابل گرفت ہے۔ حالانکہ موصوف سماجی مرتبے کی اتنی اونچی مسند پر فروکش ہیں کہ ان کی جانب نگاہ اٹھا نے والے کی پگڑی گرپڑے، لہٰذا سب کچھ دیکھ سن کر بھی ان کو مجرم کہنے کو دل نہیں مانتا، مگر انھوں نے محض اسی پر بس نہیں کیا۔تجسس کے ہاتھوں مجبورہو کر جب ہم نے ان کا دیگر علمی کام پرکھ کر دیکھا تو کھلا کہ یہاں بھی وہی سکہ بند ”فکر ونظر“ کارفرما ہے۔ان کی شاعری کی کتاب کا ٹائٹل اور انتساب ہم نے پہلے سے سن رکھے ہوئے تھے ۔شاعری ہماری طبیعت سے یوں بھی ذرا پرے تھی۔ان تصانیف میں شامل اشعار و نثر کو زیر بحث لا نے سے اصل موزوں سے بھٹکنے کا احتمال ر ہے گا۔
اس طویل مقدمے کے بعد اس کالم کی مقصدیت اور معنویت واضح کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ساتھ ہی ہم یہ امر بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کریمی صاحب ہنوز ہمارے لیے لائق صد احترام ہیں اور اس تحریر کے پیچھے کوئی ذاتی مخاصمت کارفرما نہیں۔ہم نے محض علم و ادب کی حرمت رکھنے اور جوئندگان علم کو اس سے متعلق آداب اور قانون و ضابطے کے بارے میں آگہی دینے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے۔علم اور ادب بہت ہی مقدس پیشے ہیں اور صدیوں سے لوگ اس بات پر متفق و متحد ہیں کہ یہ پیغمبروں اور نبیوں سے اپنی نسبت کی بنا پر بہت ادب و احترام کے مستحق ہیں۔علم و ادب کے پیشے سے غداری، دھوکہ دہی اور اپنے ذاتی مفادات اور جاہ و حشم کے لیے اس کا استعمال ایک گھناونا اور قابل نفرین جرم ہے۔اسی طرح کسی کے تخلیقی کام کی چوری اور اپنے نام سے اس کی طباعت بھی ایک سنگین جرم ہے۔اسے انگریزی میں(PLAGIARISM)کہا جاتاہے۔دنیا بھر میں اس جرم کے سدباب کے لیے سخت قوانین وضع کیے گئے ہیں، جن کے تحت اس جرم میں ملوث شخص کو قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں بھگتنی پڑ سکتی ہیں۔
پاکستان میں بھی یہ قانون موجود ہے، مگر ہم اجتماعی انحطاطِ کردار کے باعث ایسے قوانین کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ہمیں دراصل ایک موذی بیماری لاحق ہے۔ہم میں سے ہر ایک کو لامحدود دولت ، عزت اور شہرت بٹورنے کا خبط ہے ، جوہمیں ایسے کام کرگزرنے پر اکساتا ہے جو ایک عزت مند اور معروف انسان کو بھی ذلت اور گمنامی کے دبیز اندھیروں میں دھکیلنے کا موجب بن سکتے ہیں۔معاشرے میں جھانک کر دیکھیے۔آپ کو لوگ جھوٹی شہرت اور نیک نامی کمانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے آزماتے نظر آئیں گے۔
پچھلے ہی دنوں خبر تھی کہ گلگت شہر میں ہرشخص نے اپنی گاڑی پر ”پریس“ کا لیبل چپکا رکھا ہے۔جعلی صحافیوں کی بھرمار ہے۔جسے دیکھوکالم نویس بن بیٹھا ہے،زبان و بیان کی شد بد نہ امور و آداب صحافت سے شناسائی،دو چار ادھر ُادھر کی ہانکی، بیچوں بیچ ایک نمائشی فوٹو چپکا لی، کالم تیار۔ ان تمام لوگوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ان میں سے ہر ایک جھوٹی اور سستی شہرت کا خواہاں ہے مگران اوچھے طریقوں سے ناموری حاصل کرنے کی بجائے یہ لوگ اپنی عزت نفس بھی کھو بیٹھتے ہیں۔اخبارات کی فراوانی سے وہ نفسا نفسی کا عالم ہے کہ مستند صحافیوں کی قدر اور اہمیت بھی داو¿ پر لگ گئی ہے۔یہاں پر میں ایسے تمام ایڈیٹر صاحبان کو بھی اس تنزل کا ذمہ دار گردانتا ہوں جو بغیر تصدیق کے لغویات کو پریس میں بھیج دیتے ہیں۔اس سے نہ صرف اخبار کی صحت اور مجموعی تاثر پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ ایک ایسا معاشرہ بھی فروغ پاتا ہے جس میں عالم اور جاہل کا مرتبہ یکساں ہوتا ہے۔علم و ادب ، صحافت اور درس و تدریس کے شعبوں کی حرمت بچانے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔اس ذمہ داری کی اہمیت و افادیت کا احساس نہایت ضروری ہے۔
اگر ہم نے جعلی اور خود ساختہ صحافیوں، لکھاریوں اور علم و دانش کے سوداگروں کو اپنی صفوں سے نکال باہر نہ کیا تو معاشرے میں الفاظ کی حرمت کوڑیوں کے مول بکنے لگے گی۔
جناب بجا فرمایا آپ نے۔۔
ReplyDeleteان حضرت کی کتاب ہم نے بھی بہت "اہتمام" سے خریدی تھی مگر پڑھ کر مایوسی کے سوا اور کچھ نہ ملا۔ موصوف نے اس کتاب میں بھی بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پروین شاکر کی ایک نظم سمیت دو دیگرمشہور غزلیں ہوبہو اپنے نام کے ساتھ شائع کردی ہیں۔
مجھے گلہ ان قلم کاروں اور گلگت بلتستان کے نامور شعراء سے ہے جنہوں نے کلام کو پڑھے بغیر اس کتاب پر نہ صرف تبصرہ کیا ہے بلکہ تعریف میں بھی بہت کچھ لکھ دیا ہے۔
آپ کی تحریر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اسی طرح لکھتے رہیں۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ کو تحریر پسند آئی۔ اگر آپ ایسے سنجیدہ پڑھنے والے ملتے رہے تو ہم ضرور لکھتے رہیں گے۔۔
Delete