نیٹکو” اور سفر کا رائج فلسفہ”


سفر وسیلہ ظفر‘-جن صاحب نے یہ مقولہ گھڑا ہے،وہ غالباً ہوائی جہاز ،مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو جیسی شاہی سواری میں سفر کرتے رہے ہونگے۔ اُن کا واسطہ کسی طرح خداوندانِ نیٹکو یا ان کی کھانستی کوکتی بسوں سے پڑ جاتا، تو انھیں اپنے فلسفے پر نظر ثانی کرنا پڑتی۔ موصوف اگر آج حیات ہوتے ،تو فلسفی ہوتے یا نیٹکو کے مسافر- اِن دونوں باتوں کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا فلسفہ و سائنس دونوں کی رو سے باور نہیں آتا-کیونکہ اس جان لیوا سفر کے بعدگھنٹوں اپنے شعور و لاشعور کےعمیق گوشے جھاڑ کر ذاتی کوائف از سر نو یاد کرنے کی ضرورت پڑتی ہے- سو کجا فلسفہ دانی ؟

بدقسمتی سے ہمارا واسطہ اس ’براق ‘سے پڑا اور اٹھائیس گھنٹوں کا صبر آزما سفر (جو اس کے بعد ہمیں انگریزی والا ’سفر‘Suffer لگا) جھیلنے کے بعداپنی ہستی کے پریشاں ذرّے مجتمع کرتے ہوئے اس ممکنہ ظفر پر غور کیا ،جو فلسفے کے مطابق یہی کہیں ہمارے لیے دیدہ و دل فراش کیے منتظر ہونا چاہیے تھا،مگر ندارد۔عقدہ کھلا کہ نیٹکو نے اس فلسفے کو اپنے محکمے کی روایات اور رسوم ورواج سے ہم آہنگ کررکھا ہے۔لہٰذا یہاں ظفر سے مراد ایم ڈی نیٹکو ظفر اقبال ہیں۔سیدھا سا مطلب یہ نکلا کہ یہ سفر ظفر صاحب کے لیے لامحدود ممکنات کا در وا کرنے کا وسیلہ ہے، اور مسافرانِ نیٹکو کے لیے محض وبال۔بات ہمیں سخت ناگوار گزری،مگر بے بس تھے۔

ہم اپنی آپ بیتی مع حالات و واقعات شروع سے آپ کے گوش گزار کرتے ہیں، تاکہ آپ پر بذریعہ نیٹکو سفر کے تمام معارف،لوازمات اور ممکنات واضح ہوں اور آپ ہمارے نکتہ نگاہ سے ہمدردی محسوس کریں۔

گاہکوچ شہر سے ہم نے عازم سفر ہونا تھا اورراولپنڈی ہماری منزل تھی۔ہم نے ٹکٹ خریدا اوراپنا سامان اٹھائے بڑے اشتیاق سے بس کا انتظار کرنے لگے۔اچانک کھڑکھڑاہٹ کی ایک زور دار آواز آئی اور ایک میلی کچیلی،دھواں اُگلتی بس آرُکی۔یہ بس اتنی قدیم تھی لگتا تھا کہ جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کی فوجیں جب فرانس میں داخل ہوئیں ،تو ان کے تصرف میں یہی بس تھی۔ اس کی مجموعی ہیت پطرس کی سائیکل سے بہت خستہ تھی ۔رنگ روغن کب کا اُتر چکا تھا اور نیچے سے سپاٹ دھاتی رنگ جھانک رہا تھا۔سامنے کا شیشہ عاشقِ نامراد کے دل کی مانند چکنا چوُر تھا،جسے کسی دردمند نے پیلے رنگ کے سستے پلستر سے یکجا کرنے کی کوشش کی تھی،مگر رفوگر کا ہاتھ مشاق نہ تھا ،لہٰذاپلستر کے بڑے بڑے ٹکڑے جہاں جہاںسے سرکے تھے ، وہیں نیچے سے اس کے زخم مسکراتے تھے۔اس کے دو اطراف گرد و غبار کی اتنی موٹی تہہ بیٹھی ہوئی تھی ،گویا اس کا خمیر اِسی خاک سے اٹھا ہو۔اس کے شاندار عہد رفتہ کی کہانی اس کی ایک ایک خراش ، اور ٹوٹے کل پرزے پر کندہ تھی۔اس بس کی حالت ایک صحرا نورد کی سی تھی، جو منزل کی تلاش میں تمام آبلے پھوڑ چکا ہو،مگر منزل کی حسرت ہنوز باقی ہو اور وہ بدن کے ہر اک گھاو کو اپنی طلب اور شوق کا اشتہار بنائے پھر رہا ہو۔ یوں محسوس ہوتا تھا ،جیسے اس کا ڈھانچا دھڑام سے گرپڑے گا اور اس کے کل پرزے صدیوں پرانے بندھن توڑ کر آزاد ہونگے ،مگر ایسا نہ ہوا۔

ایک درمیانی عمر کا  شخص ،جو میلی کچیلی نیلی وردی میں ملبوس تھا،چلا کر بولا:’سامان رکھ دو، بس روانہ ہونے والی ہے۔‘مجھے لگا،آج یہ بس شاید آخری بار روانہ ہو۔

سامان رکھ کر جونہی بس میں داخل ہوا،تیز بدبو کا ایک بھبوکا ناک میں گھس آیا۔ میری نگاہوں میں سبھی منظر دھندلا گئے۔ یوں محسوس ہوا، جیسے چکرا کر گرپڑوں گا، مگر سنبھل گیا اورکسی کا کاندھا ،کسی کا سر پکڑ کر اپنی سیٹ تک پہنچ گیا ۔جو لوگ ہمیں چھوڑنے آئے تھے ،انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا ،جن میں واضح ہمدردی لکھی ہوئی تھی۔ طبیعت سنبھلی تو اردگرد نظر گھمائی۔بس کی صفت مومنانہ تھی،یعنی ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہ تھا۔جیسی باہر سے کھٹارہ تھی،ویسی ہی اندر سے بوسیدہ نکلی۔سیٹوں کے غلاف جگہ جگہ سے مسک گئے تھے اور ان میں گاڑھی گاڑھی بساند رچی ہوئی تھی۔کم و بیش یہی صورت کھڑکیوں پر لٹکے ہوئے پردوں کی تھی۔یہ اتنے پرانے اورگھسے ہوئے تھے کہ ان کے رنگ و نسل کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم نہ ہوسکتی تھی۔بھانت بھانت کے نقوش و نگار کے بیچوں بیچ چکنائی کا بڑا سا دھبہ تھا، شاید مسافر سروں میں سرسوں کا تیل ڈال کر ان سے ٹیک لگاتے رہے تھے۔ان پردوں کے پیچھے ایک اور پردہ تھا۔صورت سے لگتا تھا کہ یہ کبھی شیشہ رہا ہوگا، مگر اب اس پر اتنی لکیریں اور خراشیں پڑ چکی تھیں کہ آر پار دیکھنا ممکن نہ رہا تھا۔

اس دقیق اور زندہ مثال سے امتداد ِزمانہ کے معنی ہم پر خوب روشن ہوئے۔ڈرائیور کے سر کے عین اوپر ایک بکس تھا۔شکل و صورت سے لگتا تھا ،ٹی وی رکھنے کے لیے بنایا گیا،مگر جس ٹی وی نے اس کی زینت بننا تھا،وہ یہاں نہیں پہنچ سکا تھا، ہو سکتا ہے، غلطی سے کسی نیٹکو عہدیدار کے گھر پہنچ گیا ہو۔ڈرائیور بڑا باذوق واقع ہوا تھا۔اس نے اپنے سامنے شیشے پر کاغذ کے پھول چن رکھے تھے،جن کا رنگ دھوپ چرا لے گئی تھی۔اسے ان پھولوں کو پھینکنے یا بدلنے کا خیال نہ آیا تھا۔ہوسکتا ہے ان میں اس کی جوانی کے کسی خوبصورت لمحے کی خوشبو محفوظ ہو،جو کیسٹ پلیئر سے پھوٹتی شینا موسیقی کی لے میں تحلیل ہوکر اسے اس کے ماضی کے پرانے ورق پڑھاتی ہو۔کنڈکٹر نوجوان تھا،لیکن اس کے ماتھے پر شکنیں تھیں۔اس کی وردی میلی اور اور اس کی پیشانی کی طرح شکن آلود تھی۔بظاہر وہ بڑی پھرتی سے یہاں وہاں بھاگتا پھرتا تھا مگر اپنے کام سے سخت ناخوش دکھائی دیتا تھا۔


ان تمام مناظر سے نظر چرا کر ہم نے مسافروں پر نظر ڈالی۔وہ سب بیزار اپنی سیٹوں سے چپکے بیٹھے تھے،جیسے ذرا ہلے یا آواز کی تو انھیں بس سے اتار دیا جائے گا۔ان میں سے اکثریت فوجیوں،دکانداروں اور طالب علموں کی تھی۔اکا دکا لوگ علاج کی غرض سے یا پھر پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد رشتہ داروں کے پاس جا رہے تھے۔ہمارے آگے والی سیٹ پر ایک بڑے میاں اور بڑی بی بیٹھے ہوئے تھے۔ان کے ساتھ والی سیٹ پر ایک خاتون تین چار چیختے چلاتے بچوں کے درمیان براجمان تھیں۔ان میں سے ہر ایک ماں کی خصوصی توجہ اور امتیازی نگہداشت کا متمنی تھا۔ماں کی نظر التفات ذرا بھٹکی اور ادھر احتجاجی آہ و فغاں بلند ہوجاتی،اس فریاد کو اثر بخشنے کے لیے آنکھوں سے آنسووں اور ناک سے سیلاب کا خصوصی اہتمام ہوتا۔معلوم ہوا کہ بڑے میاں کے داماد شہر میں رہتے ہیں اور یہ اپنی بیٹی اور نواسوں کی فوج ظفر موج سمیت انھی کے پاس جا رہے ہیں۔یہ لوگ پہلی مرتبہ شہر جارہے تھے اور اس سفر کے لیے یہ خصوصی انتظامات کر آئے تھے۔

یہ لوگ جب بس اڈے پہنچے، تو ان کے پیچھے درجن بھر لوگ صندوقوں،بوریوں،بڑے بڑے ڈبوں اور تھیلوں کا بوجھ اٹھائے قطار اندر قطارچلے آئے۔لگتا تھا پوری جائیداد سمیٹ لائے ہیں۔ان کے بعد اگر کوئی محدب عدسہ لے کر ڈھونڈنے بیٹھ جاتا تب بھی کوئی ایسی شے دستیاب نہ ہوسکتی تھی،جن پر بڑے میاں کی ملکیت کا گمان گزر سکتا۔سفر کے دوران کھانے کے لیے تین وقت کا کھانا ڈبہ بند ہوکر حاضر تھا اور بیچ سفر اگر توانائی میں رمق برابر کمی محسوس ہوتی تواس کے سد باب کے لیے ابلے ہوئے انڈوں،سیب اور ناشپاتیوں کا وافر انتظام تھا۔اس کے علاوہ درجن بھر بوتلوں میں تازہ پانی بھر کر رکھا گیا تھا،یعنی بڑے میاں نے صحرائی سفر کی ممکنات کو بھی پیش نظر رکھا تھا۔یہ لوگ اپنے پہلے سفر کے حوالے سے خاصے پرجوش تھے۔ ایک ایک منٹ کی خبر براہ راست شہر میں بیٹھے اپنے بیٹے کو فون پر دیتے رہے۔بڑی بی دوسری طرف سے باآواز بلند اپنی بیٹی کو بچے سنبھالنے کے نسخے بہم پہنچاتی رہیں۔غرض اس فیملی کی موجودگی سے بس کا ماحول خاصا گھریلو ہوگیا تھا۔

آخر خدا خدا کرکے بس سٹارٹ ہوئی-اس کا بیمار اور خوابیدہ انجن کھانسا اور انگڑائی لے کر بیدار ہوا ،مگر اس بیداری میں احساس ذمہ داری سے زیادہ مجبوری کا عنصر غالب تھا۔ڈرائیور نے جب انجن کو اس سرمستی اور سرشاری کی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے ایکسلریٹر دبایا ،تو یک دم دل کا غباردھوئیں کی صورت سینے سے خارج ہوا اور کھانسی اور چھینکوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔اس کا ڈھانچا ہولے ہولے لرز رہا تھا اور وجودپرتپ کے مریض کی مانند کپکپی طاری تھی۔ڈرائیور پر اس کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور وہ اس شکستہ وجود کو نئی منزلوں سے آشنا کرنے پر مصر تھا۔

دھیرے دھیرے بس آگے سرکی اور لوگوں نے بسم اللہ پڑھ کر کلمہ طیبہ کا ورد کرنا شروع کردیا۔اب ہم سڑک پر تھے اور ہمارا سفر شروع ہوگیا تھا ۔پہلے پہل تو ہلکے ہلکے جھولوں کا مزا ملا،مگر جوں جوں رفتار بڑھی ،یہ جھولے بتدریج جھٹکوں اور پھر زلزلوں میں تبدیل ہوگئے۔بس کی کھڑکیوں ،دروازوں اور سیٹوں سے کھڑ کھڑاہٹ کی ایسی خوفناک آوازیں بلند ہورہی تھیں جیسے کسی ہارر فلم کی پس پردہ موسیقی بج رہی ہو۔جھٹکوں کی سنگینی اور تواتر میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ایک دو جگہ کچھ اس نوعیت کے جھٹکے لگے ،ہمیں لگا جیسے ہمارے اعضائے رئیسہ نے آپس میں جگہ بدل لی ہو، ہمت چٹخ گئی،مگر خود کو سمجھایا کہ ابھی مقامات ِ آہ و فغاں اور بھی ہیں، لہٰذا چپکے بیٹھ رہے۔

گلگت شہر سے آگے چلاس تک سڑک بالکل کچی ہے۔فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث سڑک کی تعمیر پر مامور چینی انجنیئروں نے کام بند کر رکھا ہے۔اس سڑک پر سفر کرنے والے مسافر وں کے لیے دو سوغاتیں ہیں۔ایک تو جھٹکوں اور جھولوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جو جسم کا انجر پنجر ڈھیلا کردیتا ہے اور دوسری ،گردو غبار کے بادل جو کچی سڑک پر ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں اور ناک اور منہ کے رستے پھیپھڑوں میں گھستے ہیں اور تنفس کا نظام ہی بٹھا دیتے ہیں۔ مسافر لاکھ کھڑکیوں اور دروازوں کے پٹ بھیڑکر رستہ مسدود کرتے رہیں،مگر گرد و غبار کسی درز،کسی شگاف سے اپنا رستہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ چہرے اور سر پہ اتنی مٹی جم جاتی ہے کہ شاعر بول پڑتا ہے:

                خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں

صرف ایک خاک پہ کیا مفقود،بارشوں کے موسم میں ان بسوں کی چھتیں بھی پوری سہولت سے ٹپکتی ہیں۔متاثرین نیٹکو ہماری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ نیٹکو حکام نے اپنے مسافروں کو فطرت کی تمام جلوہ سامانیوں سے مستفید کرنے کا سامان کر رکھا ہے۔اور ہم نے بذات خود اس انتظام و انصرام سے مقدور بھر استفادہ کیا ہے۔ دوران سفر بس کی سبک خرامی اور رفتار کے پیچ و خم کے سحر میں کھو کر ہم نیند کی وادی میں جاپہنچے تھے کہ یکایک پیٹھ اور کمر پر خنکی کا احساس جاگا اور پھر اس کے زیر اثر ہم جاگے۔ہاتھ پھیر کر دیکھا تو پانی میں نچڑے ہوئے تھے، اور سردی سے بدن پر کپکپی طاری تھی۔بارش کا پانی کہیں نامعلوم درزوں سے رِس رِس کر ہم پر ٹپک رہا تھا اور ہم نیٹکو والوں کی کمال مہربانی سے دروں خانہ باران رحمت سے لطف اندوزہورہے تھے۔ خیر اس سفر میں کئی غیر متوقع مرحلے آئے اور ہمارے تجربے ،قوت ِ برداشت ،حوصلے اور کمالِ ضبط میں غیر معمولی اضافہ کرگئے ۔اس حقیقت سے ہمیں انکار نہ تھا کہ سفر اور ایڈونچر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔بس یہ کہ ہم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے،لہٰذا ’سرپرائز ‘کا مزہ چکھتے گئے اور سرپرائز ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتا ،کبھی ناگوراری کا پہلو بھی در آیا تو ہم نے ناک بھوں چڑھانے سے احتراز برتا۔

اب خیر سے ہم منزل پر کھڑے ہیں اور یہ اس بس کے کمال حوصلے ،لگن اور جراتِ رندانہ کا ثمر ہے۔اس نے منزل کو پانے کی دھن میں اپنے زخما زخم بدن اور شکستہ روح کی اذیت کو بھی فراموش کردیا ۔اس کی بلند حوصلگی کا اعجاز تھا کہ ہم ایسے رہروان ِ کم شوق بھی منزل سے ہم آغوش ہیں۔مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس بس کو ابھی راہ ِ شوق میں اور آبلہ پائی کرنا ہے،تا آنکہ ذمہ داران نیٹکومیں اس کی زندگی بھر کی صحرا نوردی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شکستگی اور داغ داغ سراپے کا احساس نہیں جاگتا،مگر ایسا ہو ناقریباً ناممکن ہے۔قرین ِ قیاس ہے کہ اس کا جنون اور شوریدہ سری اسی کے ساتھ ختم ہوسکے گی۔


Comments