Skip to main content
سرکاری ہسپتال اور علاجِ شوق گریزاں۔۔
اردو ادب میں مریض ا ور طبیب کا رشتہ اردو ادب جتنا ہی پرانا ہے، جہاں طبیب کی انتہا کو پہنچی ہوئی حکمت اور خلوص نیت کے باوجودمریض عموماً صحت یابی سے گریزاں دکھائی دیتا ہے اور مصر ہوتا ہے کہ اب غم حیات کا درماں اسی نظر عشوہ طراز سے ہو جس کے ہاتھوں حالت دگرگوں ہوئی ۔وہ خوش گماں رہتا ہے کہ جونہی وہ جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھیں گے ، مسیحائی کی تاثیر روح تک پہنچ جائے گی مگر بے اعتنائی اور سنگدلی روایتی محبوب کا خاصہ ہے اور یہ صورت شاعر سے مخفی بھی نہیں ،ناچار یہ امکان بھی زندہ رکھتا ہے کہ اگران ہاتھوں سے مسیحائی ممکن نہ ہو سکے تو گوہر جاں قدموں میں نچھاور ضرور ہو۔لہٰذا وہ بات بات پر طبیب سے الجھتا ہے اور اس کی محنت کو کار زیاں قرار دیتا ہے ، سلے ہوئے زخموں کو کرید کر راحت محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ جب وہ خبر گیری کو آجائیں تو زخم ایسے ہی ہرے ہوں اور درد کی شدت ویسی ہی تازہ ہو۔مگر وہ محبوب ہی کیا جو پشیماں ہو ، چنانچہ شاعر منتظر رہ جاتا ہے اور طبیب ناکام و نامراد۔
شعرا کا کلام ان ناآسودہ جذبات و احساسات سے بھرا پڑا ہے۔وقت کے پہیہ نے جہاں شاعری کے دیگر لازمات کے چہرے پر دھول الٹ دی، وہیں عشق و محبوبیت کے لطیف احساسات کو بھی عام زندگی سے محو کردیا ۔چنانچہ مسیحاؤں کی یک دلی باقی رہی نہ مریض کا شوق گریزاں،رہی سہی کسر سرکاری ہسپتالوں اور مروجہ علاج کے طریقہ واردات نے نکال دی ہے۔بیمار چاہے لاکھ قبا چاک کرکے دل کے زخم دکھاتا پھرے ،سرکاری طبیب کو اس پر مرہم کے پھاہے رکھنے کی فرصت نہیں ۔محسوس ہوتا ہے کہ اس غیر طبعی وراثت کی منتقلی میں کوئی سنگین غلطی سرزد ہوگئی جس کے نتیجے میں محبوب کی بے اعتنائی و سفاکی اطبا کے حصے میں آئی ، جبکہ جدید دور کے مریض تک عشق کی سر مستی، غم کی لذت اور جگر لخت لخت سے سرور حاصل کرنے کا گر پہنچ ہی نہ پایا۔نتیجہ یہ کہ یہ معمولی سر درد اور زکام میں بھی بلبلا اٹھتا ہے اور طبیب کا دامن گیر ہو جاتا ہے۔
ہم بھی ہسپتال پہنچے مگر اس کے پیچھے کسی خوش رو کی سنگدلی کارفرما تھی نہ رقیب کی مخاصمت،بس موسم کی سختی اورکچھ ہماری بد احتیاطی یوں ہم کنار ہوئے کہ ہمیں ناچار سرکاری ڈاکٹر کے باریاب ہونا پڑا۔ یوں ڈاکٹر کی نظر سے دیکھیے تو زکام ایک معمولی موسمی بیماری ہے ، مگر یہ مرض کس قدر جان کو آتا ہے یہ سبھی کو پتا ہے کیونکہ کوئی اس کے قہر سے کوئی بچ سکا ہے نہ آئندہ ایسی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ہسپتال میں پہلا مرحلہ پرچی کا حصول ہے اور یہ مریض کے شوق علاج کا امتحان بھی ہے۔سرکار نے یہ مرحلہ جان بوجھ کر پیچیدہ اور جان لیوا رکھا ہوا ہے تاکہ اس امتحان سے صرف وہی پاس ہو جو آگے آنے والے مزید دشوار مرحلوں پر ثابت قدم رہے۔گیٹ پر پہنچے تو ایک دو لوگ آگے پیچھے کھڑے ہیں۔سوچا سردیوں کی دھوپ سینک رہے ہیں۔ہم ذرا اپنی موج میں جھومتے بے دھیانی میں گیٹ کے پار ہوئے۔کیا دیکھتے ہیں لوگوں کی ایک لمبی قطار اژدھے کی طرح لہراتی ہوئی گیٹ تک پہنچی ہوئی ہے جس کا دوسرا سرا ہسپتال کے اندر کہیں غائب ہورہا ہے۔چکرا کر رہ گئے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس غصیل اژدھے کی دم پر سوار ہواجائے۔
وقت گزرتا رہاقطار ایک ایک انچ سرکتی رہی ،جب ہم قطار میں لگے تو ہمارا سایہ ہم سے چار گنا لمبا تھا اور جب پرچی کی باری آئی تو یہ سکڑ کر ہمارے قدموں میں پڑا ہانپ رہا تھا۔عشق کا اولین مرحلہ تو یوں طے ہوا ۔اب جو ہسپتال میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔قطاریں ہی قطاریں ہیں۔مختلف ڈاکٹر وں کو دکھانے والوں کی قطاریں،ایکس رے کی قطار، لیبارٹری کی قطار، سرجری کی قطار،خواتین کی قطار،الامان والحفیظ۔ عجب نفسا نفسی کا عالم ہے۔ہر شخص چلا رہا ہے، مریض بے چارگی کے عالم میں ایک طرف پڑے کراہ رہے ہیں اور ان کے عزیز وارڈ بوائز کی منت سماجت کر رہے ہیں مگر ان کی نظر کرم کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہے جس میں بمشکل ان کے چاچے مامے اور خالائیں سما سکتی ہیں۔ مریض ملتجی نظروں سے یہاں وہاں دیکھتے ہیں کہ کوئی مسیحا انھیں بازو سے پکڑ کر قطار کے آگے کھڑا کردے اور باقی سب کڑھتے رہیں۔مگر ان کا واسطہ صرف ان اٹینڈنٹ اور نرسوں سے پڑتا ہے جو رعونت سے سب کو دھتکارتے پھرتے ہیں۔ یا الٰہی اگر نچلے سٹاف کا یہ مزاج ہے تو ڈاکٹر کی گردن میں کتنا سریہ ہوگا۔سرکاری دفاتر میں بغیر جان پہچان اور اثر رسوخ کے آدمی خود کو کس قدر بے بس اور کم مایہ محسوس کرتا ہے اس کا اندازہ آپ کو تبھی ہوسکتا ہے جب آپ ایک نہ ختم ہونے والی قطار کا حصہ ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ اس سے کئی گنا مشکل جھمیلے ابھی سہنے ہیں۔
پس ایک طویل انتظا ر اور مشقت کے جان گسل لمحات کے بعدوہ مبارک ساعت بھی آئی جب ہمارا نام پکارا گیا۔ہمیں اپنا نام اس سے پہلے کبھی اتنا اچھا نہیں لگا،جتنا اس مدقوق اٹینڈنٹ سے سن کر لگا۔ایک نرس کی رہنمائی میں ڈاکٹر کے سامنے پیش ہوئے۔وہ فون پر مصروف تھے ۔ہم کمرے کی دیواروں پر لگے چارٹ پڑھنے لگے۔ انسانی اعضائے رئیسہ ، انسانی اعصابی نظام، انسانی ڈھانچے کی مختلف ہڈیاں اور جوڑ ، متعدی بیماریاں اور احتیاطی تدابیر دیکھ لیں۔ٹی۔بی ،دق اور گردن توڑ بخار کی جملہ علامات اور احتیاطی تدابیر ازبر ہوگئیں۔ایڈز اور ایچ آئی وی کے مریض کی دیکھ بھال میں بھی ہم طاق ہوگئے ، دیگر امراض پر بھی طائرانہ نظردوڑائی۔غرض جب تک ان کا فون بند ہوا ،ہمیں میڈیکل سائنسز سے متعلقہ علوم پر اچھی خاصی گرفت ہو گئی تھی۔ کم از کم کسی کو یہ کہہ کر ڈرا سکتے تھے کہ اسے فلاں فلاں خطرناک بیماری ہوسکتی ہے۔ڈاکٹر صاحب فون رکھ کر بھی دیر تک اس مزیدار گفتگو کے زیر اثر مسکراتے رہے۔ہم نے سلام کیا تو چونک گئے اور اپنی مسکراہٹ لپیٹ لی۔ انھوں نے سامنے بٹھا کر تکلیف دریافت کی ۔ہم نے چھوٹتے ہی کہہ دیا نزلہ ہے۔انھوں نے ہمیں ایسے دیکھا جیسے کہہ دیا ہو سبزی لینے آیا ہوں۔انھوں نے ہمیں جلدی جلدی نمٹانے کی کوشش کی مگر ہم مصر ہوگئے کہ مرض کی شدت واقعی قابل دست اندازی ڈاکٹر ہے اور اپنے دعوے کو استقامت بخشنے کے لیے آنکھیں میچ کر ان میں پانی پیدا کیا اور ساتھ چند چھینکوں کانمونہ بھی پیش کر دیا۔اس پر ان کا دل پسیجا اور وہ سنبھل کر دوبارہ نبض دیکھنے بیٹھ گئے۔چھاتی ٹھونک بجا کر دیکھی۔پھر کاغذ پر چند کیڑے مکوڑے بنا کر ہمیں پکڑا دیا۔پوچھا تو پتا چلا ایکسرے کرانا پڑے گا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ایکسرے روم میں جھانکا تو ماحول مختلف نظر آیا ۔مشین کسی شہید کے جسد خاکی کی طرح سفید کپڑے میں ڈھکی ہوئی تھی اور اٹینڈنٹ بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔پتہ چلا عرصہ دراز سے مشین خراب ہے۔اس نے از راہ ہمدردی مجھے بازار میں واقع نجی ایکسرے لیبارٹری کا پتہ سمجھا دیا۔
سرکاری محکموں میں ہمیشہ ایک غیر مرئی سرخ فیتہ تنا رہتا ہے جو ان دفاتر میں سرانجام پانے والے عوامل کی بے جا طوالت اور پیچیدگی کا ذمہ دار ہے۔سرکاری فائلیں سالہا سال ایک میز سے دوسری میز کا چکر کاٹتی ہیں اور گرد اکٹھا کرتی ہیں۔سرخ فیتے کا سدباب سرخ نوٹ کرسکتے ہیں یا بے پناہ اثر رسوخ۔غریب آدمی کے پاس چونکہ یہ دونوں نہیں ہوتے ،لہٰذا سرخ فیتہ اس کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔یہ مشین سرکار ی کاغذات میں ضرور زندہ ہوگی اور جب تک اس کی مرمت کی درخواست متعلقہ محکموں سے منظور ہوکر آئے گی اور مشین کارآمد ہوگی تب تک مغرب میں ایکسرے اور دیگر شعبوں میں انقلاب آچکا ہوگا ۔پھر یہ عقدہ تو ہم جیسے سادہ لوح سمجھ بھی نہیں سکتے کہ سرکاری ہسپتال میں ہی سب کام ہوا کریں تو باہر جو مافیا چمکدار شیشے کے کلینک اور لیبارٹریاں کھول کر بیٹھا ہے وہ کہاں سے کھائے گا۔اگر ہسپتال سے ہی دوا مل جایا کرے توبڑے بڑے سٹوروں میں یخ بستہ فریزروں میں رکھی ہوئی غیر ملکی ادویات کا کیا مصرف رہ جائے گا۔اگر ڈاکٹر مریض کو ہسپتال ہی میں دیکھ لے تو کلینک والے کہاں جائیں گے اور ان چمکتے دمکتے آہنی بل بورڈوں کا کیا بنے گا جن پر ڈاکٹر صاحب کی ڈگریاں جلی حروف میں لکھی ہوئی ہیں ۔اگر ارباب حل عقد نے ہسپتال ہی میں سب سہولیات مہیا کردیں تو ان کے بھانجے بھتیجے اور اعزہ اپنے اثر رسوخ کا خراج کہاں سے وصول کریں گے۔پس اس تنگ دامنی کے پیچھے کتنی ہی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
ایکسرے کے حصول سے لے کر ڈاکٹر کی مسیحائی تک کے مراحل کا تذکرہ ہماری ہمت اور اولوالعزمی کی داستان کے سوا کچھ نہیں۔مگر ہم یہ ضرور سوچتے رہے کہ کوئے طبیباں کی ملامت کے سامنے جبینِ نیاز کی حرارت کچھ وقعت نہیں رکھتی۔وہ کوئی دور تھا جب طبیب تندہی سے مریض عشق کے زخم سیتے تھے اور صحرا نوردوں کے آبلوں پر مرہم رکھتے تھے۔آج طبیب تک رسائی ہی ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ چنانچہ عزم کر لیا کہ آئندہ بخار نزلہ ایسی بیماری میں ہرگز کسی ڈاکٹر کے دامن گیر نہ ہونگے اور حلقہ احباب میں بھی یہ نصیحت کر چھوڑیں گے۔ملک عزیز کے ہسپتالوں میں کسی ایک سے ہو آئیں آپ کو مندرجہ بالا واقعات کا براہ راست تجربہ ہوگا کیونکہ اس وقت ملک میں صحت کے میدان میں خلا اتنا ہی وسیع ہے جتنا تعلیم کے میدان میں ہے۔زبانی دعووں اور عملی اقدامات کے درمیان معلق اس خلا کو پاٹنے کے لیے نہ جانے کتنی دہائیاں درکار ہونگی۔ حکومت وقت ایک شہری کی صحت پرسالانہ سو روپے سے بھی کم خرچ کر رہی ہے۔سینکڑوں مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔
خصوصا ضلع غذر کے واحد ڈی ایچ کیو ہسپتال کی حالت قابل رحم ہے۔ضلع بھر سے مریض یہاں آتے ہیں اور ان کو دھکوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔لیبارٹری ہے مگر آلات وادویات نہیں۔خون کا معمولی ٹیسٹ نہیں ہوسکتا۔ڈاکٹر دو گھڑی نہیں بیٹھتا اور کوئی باز پرس نہیں۔ذمہ داروں سے پوچھیں تو وہ فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں ، آپ کی بات بجا مگر جتنا فنڈ ملا وہ کہاں اور کیسے خرچ ہوا اس کا تعین کیسے ہو؟ہم نہیں کہتے کہ یہ محض کرپشن کی بدولت ہے ۔کیونکہ یہاں مخلص اور دیانت دار ڈاکٹر بھی موجود ہیں اور منتظم بھی مگر چونکہ یہاں کئی قوتوں اور محکموں کے مفادات وابستہ ہیں لہٰذا بدانتظامی اور نااہلی نے بھی اس اثاثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کے منفی اثرات بلواسطہ مریضوں پر پڑے ہیں۔مقام تحیر ہے کہ ہم ایک بیمار معاشرے کے بل پر ترقی کے زینے چڑھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔زچہ و بچہ کی حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔زچہ و بچہ کی شرح اموات میں پاکستان سرفہرست ہے، ہم اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صحت مند مائیں صحت مند قوم کی ضامن ہیں۔ملک عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کا جو خواب اس کے معماروں نے دیکھا وہ انھی کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگیا ۔
آج کے جدید دور میں جہاں آزاد میڈیا اور سول سوسائٹی نے تعلیمی ایمرجنسی کا شعور اجاگر کیا ہے ،وہیں صحت کے شعبے میں بھی فوری اصلاحات کی بھی ضرورت ہے اور ساتھ کڑے احتساب کی بھی کیونکہ تعلیم و تربیت جیسے امور ایک ایسی قوم کو زیبا ہیں جو ذہنی و جسمانی صحت سے سرفراز ہو۔ڈاکٹرقوم کے مسیحا ہیں انھیں فوری طور پرمطلوبہ سروس سٹرکچر دینا چاہیے تاکہ وہ تندہی اور خلوص دل سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔آنے والے دور کی تابناکی ضرور ایک صحت مند اور تندرست نسل سے مشروط ہوگی ، جس کی اساس صحت کے میدان میں فوری اور دیرپا اصلاحات پر ہے۔
Comments
Post a Comment