میں ایک خونی معاشرے میں سانس لے رہا ہوں جس کا خمیر ازلی متعفن
نفرتوں سے اٹھا ہے۔ اس کی بنیادوں میں تعصب اور تنگ نظری کا ضماد ہے۔ اس میں بسنے
والے انسانوں کی مثال بھیڑیوں کے غول کی سی ہے ،جس کا باہمی ربط اور اشتراک محض
خون بہانے اور چاٹنے تک محدود ہے ،اس کا اورکوئی تعارف نہیں۔ اس معاشرے میں بسنے
والے ہر خونی کی طرح اپنے لیے اس پہچان کا انتخاب بھی میں نے خود کیا ہے۔ میں نے
انسانی قدروں اور رویوں کویکسرمسترد کر دیا اور ان کریہہ رویوں کو اپنا لیا ، جو
صرف جانوروں اور قبل ازمسیح کے وحشیوں کو زیب دیتے ہیں۔ ان رویوں نے مجھے انسانیت
کی معراج سے حیوانیت کی پستیوں میں گرا دیا ہے، میں ننگِ انسانیت اور ننگِ وجود
ہوں۔
دراصل نفرت میرا بیوپار ہے،میں نے انسانوں کو ذات، قبیلے، رنگ نسل،
مذہب اور فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، میں ان میں تفریق اوراختلاف کی خیرات تقسیم
کرتا ہوں۔
دراصل نفرت میرا بیوپار ہے،میں نے انسانوں کو ذات، قبیلے، رنگ نسل،
مذہب اور فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، میں ان میں تفریق اوراختلاف کی خیرات تقسیم
کرتا ہوں۔ میں انھیں صبح و شام یقین دلاتا ہوں کہ ان کی ذات معتبر، ان کا رنگ
مناسب، ان کا مذہب سچا اور ان کا عقیدہ عین منشائے ایزدی ہے۔ ان کی ذات، فرقے اور
عقیدے کی بڑائی مسلمہ ہے اور ان سے ذرہ برابر اختلاف عین کفر و بدعت ہے۔ اس نظریے
کے نفاذ کے لیے میں دلیلیں اور فتوے بیچتا ہوں ۔ یہ مجھے رزق بہم پہنچاتے ہیں اور
مقابلے کے کٹھن دور میں اثرورسوخ اور زندگی کی آسائش بھی۔
یہ کام بظاہر آسان دکھائی نہیں دیتا اس کے لیے مجھے معاشرے کے
اجتماعی فکر و شعور کو سلب کرنا پڑتا ہے، عقل کو تعصب کی کوٹھڑی میں بند کرنا ہوتا
ہے۔ مجھ سے اختلاف کرنے والے کو کافر اور ملحد ٹھہرانا پڑتا ہے، اس کے موت کے
پروانے پر دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ میں صرف ایک مخصوص سوچ کی ترویج کرتا ہوں، جو
محدود نظریات کی نالی سے گزر کر اجتماعی عدم رواداری کے حوض میں گرتی ہے۔ میں ایک
عام انسان ہوں اورمیری بات اتنی اہمیت و افادیت نہیں رکھتی ۔ ممکن ہے کہ پڑھے لکھے
نوجوان جن کے ذہن مغربی فلسفیوں کے نظریات سے آلودہ ہیں، میری بات کو چٹکیوں میں
اڑا دیں، لہٰذا میں قرآنی تعلیمات و احادیث کو اپنے افکا ر کے مطابق توڑ مروڑ کر
پیش کرتا ہوں۔ میں اپنے افکار کو اسلامی نظریات کے شیرے میں بھگو کر عوام کو پیش
کرتا ہوں تاکہ کسی آزاد خیال کو اختلاف کی صورت نہ ملے، یوں میری ہر بات قابل قبول
اور جزو ایمان ٹھہرتی ہے۔ میری دکان عوام الناس کے اندھے اعتقاد اور مذہبی جنون کے
پایوں پر کھڑی ہے۔ قرآن اور حدیث گویا میری طاقت ہیں، عوام قرآن و حدیث کے تعلم
میں میرے دست نگر ہیں ۔ میں نے یہ بات ان کے لاشعور میں بٹھا دی ہے کہ مذہب کے
اسرار و رموز صرف میں ہی منکشف کر سکتا ہوں اور ان دینی علوم سے متعلق ان کی
جدوجہد اور غور و فکر سعئ لا حاصل ہے۔ پس معاشرہ دینی و دنیاوی زندگی میں سمت کے
تعین کے لیے بہ رضا و رغبت اپنی باگیں مجھے تھما دیتا ہےاور مجھے اختیار ہے کہ ان
کے لیے جس رستے کا چاہوں انتخاب کروں اور جس سے چاہوں، روکوں۔
میں نے نفرتوں کی ترویج تیز کر دی، میں نے ہر دوسرے گروہ کو مرتد
قرار دیا، ہر تیسرے فرقے کو قابل گردن زنی قرار دے دیا، میں نے لوگوں میں نفرت بھر
دی اور انھیں متشدد بنادیا۔
ہربیوپاری کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میرا کاروبار عروج پر ہو۔
دوسرے بیوپاریوں سے میری مسابقت چلتی رہتی ہے۔ ہمارے کاروبار کو فکری لحاظ سے
بیمار معاشرے راس ہیں۔ علمی وفکری لحاظ سے آزاد معاشروں میں یہ کاروبار پنپ نہیں
سکتا۔ علم اعتقادات اور رسوم و رواج کو عقل کی کسوٹی سے پرکھنے کا پرچار کرتاہے۔
علم مذہب کو جمود سے نکالنے کی سعی کرتا ہےاور اس کی بنیادیں عقلی دلائل اور
سائنسی براہین پر استوار کرنا چاہتا ہے۔
باالفاظ دیگر جدید علم اس خول کو مسمار کرتا ہے جو میں نے صدیوں کی
محنت شاقہ سے معاشرے کے فکر و شعور کے گرد تعمیر کیا ہے۔ پس اس کے سوا چارہ نہیں
کہ میں جدید علم کو کفر،الحاد اور بدعت کہہ کر اس کا ناطقہ بند کردوں۔ اس کے
لیےمیں نے ایسے تمام لوگوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگے جو معاشرے کو ایک متبادل نظام
دے کر میرے پیٹ پر لات مارنا چاہتے تھے۔ میں نے سائنس کو مغرب کی سازش اوراسلام سے
متصادم قرار دیا، میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ لوگوں کو سائنسی تعلیم سے محفوظ رکھا
جائے جو فرد کو سوال اٹھانے، غور وفکر کرنے اور شعوری فیصلے کرنے کی طرف راغب کرتی
ہے۔ اس سے میرا اختیار ختم ہوتا، میرا اثر و رسوخ ملیامیٹ ہوجاتا اور قریب تھا کہ
میں اس معاشرے کا عضو معطل بن کر رہ جاتا۔
مجھے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی، میری بقا کا سوال تھا، میں نے اپنا
بیوپار تیز کردیا، میں نے نفرتوں کی ترویج تیز کر دی، میں نے ہر دوسرے گروہ کو
مرتد قرار دیا، ہر تیسرے فرقے کو قابل گردن زنی قرار دے دیا، میں نے لوگوں میں
نفرت بھر دی اور انھیں متشدد بنادیا۔ میں نے قتل و غارت کو جزو ایمان ٹھہرایا اور اس
کے لیے ابدی انعامات اور سرخروی کی منادی کروا دی، میں نے معاشرے کو خون کا پیاسا
بنا دیا، مذہب کو بھٹی اور انسانی جان کو اس کاایندھن بنا دیا۔ میرا کاروبار عروج
پر پہنچ گیا، دولت اور طاقت میرےپیروں کی خاک تھی۔
لیکن ہر عروج کو زوال ہے، پس صورت حال تشویش ناک ہے،کیونکہ معاشرہ
فرینکن سٹائن کا درندہ بن چکا ہے۔ میں نے جس درندے کو جنم دیا تھا وہ اب میرے قابو
میں نہیں رہا۔ معاشرہ ایک ایسا کھولتا لاوا بن چکا ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا
اور یہ اپنے رستے میں حائل ہر سنگ و خشت کو نیست ونابود کرتاجاتا ہے۔ لوگوں کی
رگوں میں خون کی بجائے نفرتوں کا متعفن پس گردش کرتا ہے۔ تعصب نے ان کی بصیرت و
بصارت کو زائل کردیا ہے۔ انسانی خون اور گوشت ان کا کھاجا ہے، مگر ان کا نفس کبھی
سیراب نہیں ہوتا۔ آدم خوروں کا یہ انبوہ دانتوں سے خون ٹپکاتا ، بستیاں تاراج
کرتا، لاشیں گراتا، بھنبھوڑتا، آگے بڑھتا جارہا ہے۔
میرا ضمیر مجھے اکساتا ہے کہ میں سچ بول دوں اور اس جم غفیر کو اس
غیر فطری موت سے بچا لوں، جو نہایت تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہی ہے، مگر میں نہیں
کرسکتا۔ پس مجھے اپنی لگائی ہوئی آگ میں جل مرنا ہوگا
گومیں آگے چلتا ہوں مگراب میں اس بِھیڑ کا قائد نہیں۔ اب ان کا
جنون انھیں راہ دکھاتا ہے، روز روز نئی پستیوں کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ میں
نے درندوں کے اس غول کو شکار کرنا سکھایا ہے، ان کے منہ کو خون لگ چکا ہے،اب انھیں
روکنا اور ان کی راہیں مسدود کرنا میرے اختیار میں نہیں۔ پس میں ان کے آگے آگے
بڑھتا جا رہاہوں، آگے تباہی ہے، بربادی ہے، مگر اب میں رک نہیں سکتا، میں اس بِھیڑ
کو یہ نہیں بتا سکتا کہ میں اتنے سالوں تک تمھیں جو سکھاتا رہا، وہ سب غلط تھا،
میں نے تمھارے دماغوں میں فتور بھرا۔ میرے افکار، میرے نظریات میری دین داری محض
ایک ڈھکوسلہ تھی۔ میں نے اپنے فائدے کے لیے تمھاری انسانیت چھین کر تمھیں حیوان
بنا دیا۔
میرا ضمیر مجھے اکساتا ہے کہ میں سچ بول دوں اور اس جم غفیر کو اس
غیر فطری موت سے بچا لوں، جو نہایت تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہی ہے، مگر میں نہیں
کرسکتا۔ پس مجھے اپنی لگائی ہوئی آگ میں جل مرنا ہوگا،ان سے پہلے اس تباہی سے دوچا
ر ہونا ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بے وقوف بھی میرے پیچھے اس کھائی میں کود پڑیں
گے، مگر یہ میری انا کی فتح ہوگی، چاہے میرے ضمیر کی شکست ہو۔
Comments
Post a Comment