سب کی
خوشی کی انتہا نہ رہی
شیشے
سی ہموار سڑک ۔۔
لہلہاتے
کھیتوں کے درمیان سے سیاہ ناگ کی مانند بل کھاکر گزر ی
کسی
متمول گھرانے کو کیا سوجھی کہ شہر سے ایک لمبوتری گاڑی منگوا لی
ان کے
لڑکے بالے صبح شام گاڑی میں سڑک کی لمبائی
ناپتے، ہلڑ مچاتے
گاؤں
کے بعض لوگوں کا بھی خوب جی للچایا
کچھ
نے زمینیں بیچ کر اور کچھ نے رہن رکھ کر
گاڑیا ں منگوالیں
جو
زمینیں بک گئیں ، وہاں کنکریٹ اور سریے کے مضبوط مکان سر اٹھانے لگے
رفتہ
رفتہ جہاں گاؤں تھا ، وہاں عمارتوں کا جنگل آباد ہوگیا۔
ہریالی
دفن ہوگئی تو سارے پرندے ہجرت کرگئے
اُس
سال بہت گرمی پڑی۔۔۔۔
سینکڑوں
لوگ مر گئے
جاڑے
میں کڑاکے کی سردی پڑی ۔۔۔
سینکڑوں
اور مر گئے
بارشیں
ہوئیں تو پہاڑوں سے سیلاب اتر آیا
منہ
زور پانیوں کے سامنے کسی پشتے کا بس نہ چل سکا
سارا
شہر غرقاب ہوا
جہاں
شہرآباد تھا ۔۔۔
وہاں
تاحدِ نظر پتھروں کا ڈھیر باقی رہا
بنجر
زمیں کی کوکھ پرایک اور مردہ سپاٹ تہہ
بیٹھ گئی
گاؤں
کا نوے سالہ بزرگ ایک سوکھی ٹہنی سے سنگلاخ
زمین کریدتا ہے
بھیگی
آنکھوں سے مسکرایا،
پھولوں اور پرندوں کی آہ لگ گئی
آہ ۔۔۔گاؤں
بیچ کر شہر کمایا جاسکتا ہے۔۔۔
لیکن
شہر بیچ کر گاؤں واپس حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
Comments
Post a Comment