ڈیجیٹل دور میں ڈس انفارمیشن کتنا بڑا مسئلہ ہے؟

 یہ 30 اکتوبر 1938 کی بات ہے۔ امریکی ریاست نیو جرسی میں ریڈیو سٹیشن ’سی بی ایس‘ پر معمول کا پروگرام جاری تھا کہ اچانک پروگرام روک کر سپیشل نیوز بلیٹن نشر کیا گیا کہ مریخ سے نامعلوم خلائی مخلوق نے زمین پر حملہ کر دیا ہے۔

’سی بی ایس‘ نے امریکی افواج اور فضائیہ کی خلائی مخلوق کے ساتھ لڑائی کی لمحہ بہ لمحہ رودار براہ راست نشر کی۔ اس میں بتایا گیا کہ افواج کو مکمل شکست ہو چکی ہے اور ملک پر خلا سے آنے والے دشمن کا قبضہ ہو گیا ہے، جس نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے۔

ان اطلاعات سے نیو جرسی، نیویارک اور دیگر شہروں میں دہشت اور افراتفری پھیل گئی۔ ہر طرف بھگدڑ مچ گئی اور نظام زندگی درہم برہم ہو گیا۔ ’سی بی ایس‘ نے صورت حال کے پیش نظر اعلان جاری کیا کہ ان کا پروگرام حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک ڈراما ہے جو ایچ جی ویلز کے ناول ’وار آف دا ورلڈز‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔

پروگرام سے منسلک افراد نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ڈرامے سے اس قدر خوف اور افراتفری پھیل جائے گی۔

وقت بدل گیا ہے، میڈیم بدل گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے جانے انجانے میں کیے جانے والے ’ڈراموں‘ سے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کی ریت آج بھی قائم ہے۔ ’سی بی ایس‘ کے ڈرامے میں نشر ہونے والے بلیٹن ’فیک نیوز‘ یعنی جھوٹی خبر کی کلاسیکی مثال ہے جو ڈیجیٹل دور میں ایک بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ فیک نیوز یا ڈِس انفارمیشن وہ غلط خبر یا معلومات ہیں جو کسی فرد، گروہ یا کمیونٹی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے شائع یا نشر کی جائیں۔

ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر لوگوں کا انحصار کم کر کے انہیں ایک متبادل میڈیا دے دیا ہے۔ یوں لاکھوں کروڑوں معلومات تخلیق کرنے والوں کی موجودگی میں ہم پر انفارمیشن کی بمباری ہونا ایک قدرتی بات ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا نے متبادل میڈیا کی حیثیت سے جہاں محروم طبقات کو آواز بخشی اور سماجی و معاشرتی ترقی کی ان گنت راہیں کھولیں، وہیں کچھ افراد اور گروہوں نے اسے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بھی بنا لیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اقلیتی گروہ، صحافی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن ان بے نام و بے چہرہ سوشل میڈیا دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان اقلیتی گروہوں، صحافیوں، سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف آئے روز سوشل میڈیا پر دھونس دھمکی اور بہتان طرازی کی تحریکیں معمول کی بات ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی غیر مرئی دنیا میں انجام دیے جانے والی افعال حقیقی دنیا میں حقیقی لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن صحافیوں اور سیاست دانوں پر گستاخ یا غدار کا بے بنیاد لیبل لگا دیا جاتا ہے، ان سے نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ ان کی اور ان کے خاندان کی جانوں کو بھی خطرات درپیش ہوتے ہیں۔

یہ حقیقت افسوس ناک ہے کہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر بے بنیاد پراپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگانے والوں کے چہروں سے گمنامی کا نقاب کھینچنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی گئی۔ صورت حال یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان جیسی انتہا پسند تنظیمو ں نے بھی اپنے دھرنے سڑکوں اور چوراہوں سے ڈیجیٹل میدانوں میں منتقل کر دیے ہیں۔ یہاں سے وہ گستاخی کے الزامات اور سنگین نتائج کی دھمکیاں موثر طریقے سے نشر کر سکتی ہیں۔ محنت و لاگت صفر اور نتائج من پسند۔

’زندگی تماشا‘ فلم کے ڈائریکٹر سرمد کھوسٹ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گمراہ کن پراپیگنڈے کا شکار ہونا اور قتل کی دھمکیاں ملنا کیسا لگتا ہے۔ کاشف عباسی سے معلوم کر سکتے ہیں کہ ٹوئٹر پر آپ کے خلاف گستاخِ صحابہ کا ٹرینڈ چلے تو عدم تحفظ کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ اسی طرح حامد میر اور درجنوں دیگر صحافی جن پر غدار اور پیسوں کے لیے قلم بیچنے کا الزام لگا تو انہوں نے اپنے بچوں کو کیسے سمجھایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔


اگرچہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندی، جھوٹ اور بہتان تراشی پر مشتمل پروپیگنڈے کا تدارک مشکل ہے مگر ہم بحیثیت معاشرہ چاہیں تو اس کے خلاف موثر اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ اس مہم میں ہم اور آپ بیک وقت ذاتی اور ادارہ جاتی سطح پر کام کر سکتے ہیں۔

ڈس انفارمیشن پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلا بند آگاہی کا باندھا جانا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہو کہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملنے والی تمام معلومات مصدقہ نہیں ہوتیں۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ تک معلومات پہنچانے والے کا ایک ایجنڈا ہو سکتا ہے اور وہ اس خبر یا معلومات کے ذریعے آپ سے ایک خاص ری ایکشن کی توقع رکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی شخص پر گستاخی یا غداری کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں تو اس کا مقصد اس کی جان و مال کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اب اگر ہم نے ایسی معلومات بغیر تصدیق کے قبول کر لیں تو ہم بھی جذبات کی رو میں بہہ سکتے ہیں اور کسی سنگین غلطی کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی خبر، تصویر، یا ویڈیو کی تصدیق کیے بغیر اسے درست مان لینے اور آگے پھیلانے کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

لہٰذا شیئر کے بٹن پر کلک کرنے سے پہلے ٹھہریے۔ خبر کا ماخذ یعنی سورس دیکھیے کہ آیا وہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ خبر کی تصدیق کا آسان ترین طریقہ اسے گوگل کرنا ہے مگر یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ فیک نیوز یعنی جھوٹی خبر کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے یہاں تک کہ قابل اعتماد ذرائع یعنی اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو بھی غلطی کر سکتے ہیں۔

آج کل تعلیم یافتہ معاشروں میں میڈیا لٹریسی اور ڈیجیٹل لٹریسی کے فروغ پر کافی کام ہو رہا ہے۔ ا س کا مقصد معیاری صحافت اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال کو فروغ دینا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ صحافیوں کو معلومات کی تصدیق اور غلط معلومات کی روک تھام کی تربیت دی جائے اور انہیں ان تمام ذرائع تک رسائی دی جائے جہاں سے وہ معلومات کی موثر اور بر وقت چھان بین کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام طبقات میں سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال اور ڈس انفارمیشن کے خلاف شعور اجاگر کرنا ضروری ہے، کیونکہ ملک میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور نفرت کے پھیلاؤ میں بھی یہی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں میڈیا اور ڈیجیٹل لٹریسی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں وزارتِ اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان نے ایک حوصلہ افزا قدم اٹھایا ہے، حکومت کے زیر اہتمام اس ماہ کے دوسرے ہفتے میں وفاقی دارالحکومت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں قیام امن اور بقائے باہمی کے فروغ میں ڈیجیٹل میڈیا کے کردار کا جائزہ لے گی۔ امید ہے کہ International Media and Conflict کے موضوع پر ہونے والی اس کانفرنس سے نہ صرف ڈیجیٹل دور میں پیدا ہونے والے مواقع اور مسائل کی نشاندہی ہو گی بلکہ ان سے نمٹنے کے لیے موثر تجاویز اور حکمت عملی سامنے آئے گی۔

Comments